اتحاد امت کانفرنس کے مقاصد

اتحاد امت کانفرنس کے مقاصد

ملی یکجہتی کونسل کی طرف سے ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے علماء ومشائخ اور ملک کی بڑی درگاہوں کے سجادہ نشینوں اور متعلقین کے ایک بڑے کنونشن کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ امت مسلمہ کے چہرے سے فرقہ بندی اور تعصبات کے داغ صاف کر کے امت کا ایک متحدہ صاف و شفاف چہرہ دنیاکے سامنے پیش کیا جاسکے۔ اس اہم کنونشن میں بیرون ملک کی اسلامی تحریکوں اور دینی و مذہبی اداروں کی سرکردہ شخصیات کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے ۔ امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس اور سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے کچھ دوسرے شیوخ کے علاوہ ایران ، ترکی، مصر ، افغانستان ، تیونس، مراکش ، ملائیشیا، انڈونیشیا ، تاجکستان، فلسطین ، کویت ، اردن ، لبنان ، قطر، بوسنیا، سوڈان، نیپال ، ہندوستان، بنگلہ دیش ، شام اور برطانیہ سے بھی ممتاز اسلامی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
گیارہ نومبر کے کنونشن کے بعد 12نومبر اور 13نومبر کو اہم بیرونی وفود کے ساتھ پاکستانی علماء ومشائخ کی نشستیں رکھی جائیں گی اور اس اہم موضوع پر تبادلہ خیال کیاجائے گاکہ امت مسلمہ کے اس تصور کوکیسے زندہ رکھاجائے گا کہ یہ امت انسانوں کو عدل و انصاف پر مبنی ایک عادلانہ انسانی معاشرہ قائم کرنے کے عظیم مقصد کے لیے اُٹھائی گئی ہے۔اس امت کے پاس انسانیت کی رہنمائی کے لیے اللہ کی آخری کتاب ہے۔ یہ امت پیغام رحمت کی حامل ہے اور انسانوں کی خدمت کے لیے اٹھائی گئی ہے اور یہ امت قدر مشترک اور درد مشترک پر اب بھی متحد ہے اور شیعہ سنی، بریلوی ، دیوبندی اور مقلد غیر مقلد کی تفریق سے بالا تر ہو کر قرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انسانیت کی رہنمائی کا کام کرسکتی ہے۔
امت مسلمہ میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے استعماری قوتیں ہمیشہ سر گرم رہی ہیں۔ اس وقت ان طاقتوں کے پاس بے پایا ں مادی وسائل جمع ہوگئے ہیں ۔مالی وسائل کے علاوہ ذرائع ابلاغ پر ان کی گرفت ہے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کر دکھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ان کے اپنے ٹی وی چینلز، اخبارات وجرائد،نیوز ایجنسیوں کے علاوہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں ان کے تنخواہ دار ملازم یا ایسے افرادجن کے مفادات ان سے وابستہ ہیں ،بھرے ہوئے ہیں۔ یہ سب لوگ ہر وقت مسلمانوں کے اندر فتنہ برپاکرنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمان ممالک کے حکمران ، ذرائع ابلاغ اوردینی وسیاسی جماعتیں یا تو خاموش تماشائی ہیں جو ان کی ریشہ دوانیوں سے یا تو بے خبر ہیں یا بے بس ہیں یا اپنے مفادات کے تحت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق چپ سادھے کھڑے ہیں۔
ایسے حالات میں ضرورت ایک ایسے گروہ کی ہے جو مسلسل امت مسلمہ کو استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی طرف متوجہ کرتا رہے اس کی ترجیح اول مسلمانوں میں اتحاد و ہم آہنگی پیدا کرنا ہو اور جو مسلمانوں کو باہمی افتراق سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کرتا رہے۔ عالمی اتحاد امت کانفرنس کے انعقاد کامقصد بھی یہی شعور پیدا کرنا ہے۔
اتحاد پیدا کرنے لیے اختلافی مسائل سے صرف نظر کرنا ضروری ہے ۔ اتحاد کے لئے یہ خواہش رکھنا کہ تمام شیعہ اہل سنت و الجماعت بن جائیں یا تمام سنی شیعہ بن جائیں قابل عمل نہیں ہے نہ یہ بات قابل عمل ہے کہ سب غیر مقلد اور سلفی یا اہلحدیث حنفی بن جائیں یا سب لوگ سلفی مسلک اختیار کرلیں ۔ یہ مختلف گروہوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن قابل عمل نہیں ہے۔ اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا راستہ یہی ہے کہ یہ سب قدرمشترک پر اکٹھے ہو جائیں جس کی نشاندہی کرتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا ۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبی (ص) دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

فرقہ بندی اور نسلی و لسانی تعصبات کے ذریعے دشمنوں نے ہمیشہ امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دے کر پوری امت کو دنیا بھر میں آپس کے قتل مقاتلے کی نوبت تک پہنچا دیا گیا ہے۔ اسی طرح عرب ، کرد اختلاف عراق میں،پشتو اور فارسی اختلاف افغانستان میں سنی اور علوی اختلاف ، شام میں اور پنجابی ، پختون، بلوچ سندھی ، مہاجر اختلافات پاکستان میں تفرقے کا ذریعہ بن گئے ہیں ۔ملی یکجہتی کونسل نے اتحاد امت کانفرنس میں تمام مسلکی اور لسانی گروہوں کے اہم نمائندوں کو امت مسلمہ کے ایک متحدہ چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے اکٹھا کیا ہے تاکہ ایک طرف امت کو ایک امت واحدہ ہونے کا احساس دلایا جائے اور دوسری طرف دنیا کو بھی امت کی طرف سے عدل وانصاف کے اصولوں پر مبنی باہمی تعاون کے ساتھ ایک پر امن عالمی نظام تشکیل دینے کی دعوت دی جائے ۔
دردِ مشترک کیا ہے ؟ امت مسلمہ مغلوب ہے اور پوری دنیا میں رسوائی کا شکار ہے ۔ استعمارکی جارحیت کے مقابلے میں متحد ہو کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ استعماری قوتیں ہمیں الگ الگ کر کے شکار کرنا چاہتی ہیں اور ایک کے بعد دوسرے اسلامی ملک کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنارہی ہیں۔ بعض ممالک جیسے افغانستان اور عراق میں یہ جارحیت ننگی فوجی مداخلت کی شکل میں ہے۔ بعض دیگر ممالک جیسے ایران اور سوڈان میں اقتصادی پابندیاں عائد کر کے ان کو معاشی طور پر محتاج کرنے کی سازش ہے۔پاکستان جیسے ممالک میں ہم سے اپنے فیصلے کرنے اور اپنی پالیسیاں خود بنانے کی آزادی چھین لی گئی ہے اور ایک کاسہ لیس طبقے کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ اس طبقے سے نجات حاصل کرنے اور ایک متحد اور آزاد امت کے طور پر اپنی پالیسیاں خود اپنی منفعت اور مصلحت میں تشکیل دینے کے لئے امت کے ہر مکتب فکر کے علماء و مشائخ کا مل بیٹھنا اور آپس کا قریبی رابطہ ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کی تنظیم اس بلند مقصد کی خاطر مسلسل عملی جد وجہد کے لئے تشکیل دی گئی ہے اور 11نومبر کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقد بین الاقوامی علماء و مشائخ کانفرنس اس سلسلے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی ان شاء اللہ ۔
حضورنبی کریم (ص) پوری بنی نوع انسانوں کے لئے اللہ کے رسول تھے۔ انہوں نے انسانوں کو رنگ و نسل پر مبنی ہر طرح کے قبائلی ، نسلی اور لسانی تفریق سے اوپر اٹھا کر ایک آدم کی اولاد کی حیثیت سے ایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دی۔ بنی آدم بھی ایک اور ان کا رب اور پالنہار بھی ایک۔ مرد اور عورت کو اللہ نے نفس واحدہ سے پیدا کیا ہے یہ ایک دوسرے کے مد مقابل نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ سکینت اور اطمینان پاتے ہیں۔ رنگ نسل اور زبان کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے اور بنی نوع انسان کی رنگا رنگی اور ان کا تنوع انسانی معاشرے کے حسن اور تقویت کا باعث ہے ۔
بقول اقبال(رح)
شبنمِ یک صبحِ خندا نیم ما
از حجاز و چین و ایرانیم ما
ہم ایک مسکراتے ہوئے صبح کا شبنم ہیں ۔ حجاز اور چین اور ایران سے ہمارا تعلق ہے۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں۔
نہ افغانیم و نہ ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیز رنگ و بو برما حرام است
کہ ما پرور دہٴ یک نو بہار یم
ہم افغان اور ترک تاتارنہیں بلکہ ایک ہی چمن کے ایک ہی شاخسار سے تعلق رکھتے ہیں ۔ہمارے اوپر رنگ و نسل کی تمیز حرام کر دی گئی ہے کہ ہم ایک ہی نو بہار کے پرور دہ ہیں۔

ایک جگہ فرما تے ہیں۔
یو ں تو سید بھی ہو ملا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟
ایک جگہ مسلم امت سے شکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
ملتے بودی ملل کردہٴ
تم ایک ہی قوم تھے اب اقوام میں تقسیم ہوگئے ہو۔

فرقوں اور اقوام میں تقسیم در تقسیم ہو کر ہم استعماری قوتوں کے لئے نرم چارہ بن گئے ہیں ۔ اب ہمارے و سائل استعماری اقوام کے ہاتھ میں ہیں اور ہم ان کے دستنگر اور محتاج ہوگئے ہیں ۔
اسلامی دنیا میں اس وقت ترک، کرد، عرب، عجم، فارسی پشتو، پنجابی، پشتون، سندھی ، بلوچ اور مہاجر کی بنیاد پر فساد پھیلایا جا رہا ہے اور قتل و مقاتلہ تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ اور دوسری طرف شیعہ سنی ، بریلوی، دیوبندی، مقلد غیر مقلد اور سلفی اور صوفی کے جھگڑے کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ درباروں اور زیارت گاہوں پر بم دھماکے کر کے بے گناہ زائیرین کا خون بہایا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں میں آپس میں کے اختلافات کو ہوا دے کر دشمنی اور قتل و قتال تک نوبت پہنچ جائے۔ استعماری طاقتوں کی ان ریشہ دوانیوں کو روکنے کے لئے ملی یکجہتی کونسل امت مسلمہ کو امت واحدہ بنانے کے لئے مسلسل عملی جد وجہد کرنے کا ایک عالمی ایجنڈا بنانے کے لئے کوشاں ہے ہم اس کے لئے خطبات جمعہ کو مسلمانوں کو قدر مشترک پر اکٹھا کرنے اور ان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔ تاکہ خطبہٴ جمعہ میں ہر مسجد سے ایک ہی آواز اٹھے اور ہم آہنگ ہو کر تمام خطباء اور علماء امت محمد (ص) کو ایک امت واحدہ میں ڈھالنے کی مربوط اور مسلسل کوششوں میں مصروف ہوجائیں۔ اختلافی مسائل کو اچھالنے کی بجائے امر با لمعروف ونہی عن المنکر جیسے مشترکات کو موضوع بحث بنائیں اور امت مسلمہ کے مختلف گروہ مشترکات کو اجاگر کریں۔
ان شاء اللہ 11 نومبرکو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والی علماء و مشائخ کی بین الاقوامی کانفرنس اس سلسلے کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔
قاضی حسین احمد
جنگ نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں