نامحرموں کو دیکھنےکے اثرات

نامحرموں کو دیکھنےکے اثرات

نامحرموں کو دیکھنے سے کون کون سے ذہنی امراض پیدا ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں کون کون سی باتیں حرام‘ ننگِ انسانیت اور پورے معاشرے میں تباہ کن ہیں؟
اول تو آج کی دنیا میں محرم اور نامحرم کی تمیز ہی اٹھتی چلی جارہی ہے۔ عورتوں میں وہ چند رشتے جن کو قرآن کریم نے نامحرم قرار دیا ان کو آج کا انسان بالعموم پس پشت ڈال رہا ہے۔  پھر اس پر طرہ یہ کہ غیرحقیقی و غیر سگی رشتہ دار‘ ہر پڑوسن اور پڑوسی‘ ہر دفتر میں ساتھ کام کرنے والی‘ ہر ہسپتال ہر تعلیمی ادارے میں کام کرنے والیاں‘ بے تحاشہ نہایت دیدہ دلیری سے اور بزعم تقویٰ منہ بولی بہن‘ منہ بولی بیٹی‘ چاچی‘ خالہ‘ آنٹی اور سب سے سستی اور بے ضرر رشتہ دار یعنی ’’بھائی‘‘ اور نہیں معلوم کون کون سے رشتے اختیار کرلیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب اس کی گنجائش نہیں رہ جاتی تو ہر مرد ہر عورت کو اپنی دوست اور ہر عورت ہر مرد کو جو بھی اس کے ربط و ضبط اور اختلاط اور تقرب میں آجائے۔ کسی پر بدگمانی کرنا اور پھبتی کسنا بھی تو گنا ہے لہٰذا میں اپنے اس قلم کو زیادہ گنہگار کرنا نہیں چاہتا۔ آپ خود فیصلہ کرلیں کہ خلوت میں کیا رویہ مندرجہ بالا حکایات اور نوشتہ کی رو سے ہوتا ہوگا۔ وہ جانے اور خدائے علیم و بصیر……
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’یاد رہے کہ یہ بات بہت کم دیکھنے میں آتی ہے کہ کسی چیز پر قادر ہونے کے باوجود کوئی شخص واقعی اس سے اپنے آپ کو محفوظ بھی رکھ سکا ہے پس چاہیے کہ عین ابتداء ہی میں پوری احتیاط ملحوظ رکھی جائے اور ہر کام کی ابتداء آنکھ ہی سے ہوتی ہے چنانچہ علاء بن زیاد کہتے ہیں کہ کسی نامحرم کے لباس و پوشاک کی طرف بھی نہ دیکھنا چاہیے اور ان کی طرف سے آنے والی خوشبو بھی نہ سونگھنی چاہیے اور نہ ان کی آواز (کان دھر کر) سننی چاہیے اور نہ ان سے پیغام و سلام کی سلسلہ جنبانی کرنی چاہیے۔
حضور نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ پہلی نظر تیری  ہےیعنی اتفاقیہ پر تجھے اختیار نہ تھا لیکن دوسری مرتبہ نظر نہ ڈالنے کا تجھے اختیار تھا اور پھر بھی ڈالی تو اس کا گناہ تجھ پر ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ پرانے زمانے کی کچھ بھولی بسری باتیں سناتے ہیں جن کو مشکل سے حلق سے نیچے اتارا جاسکتا ہے یعنی ناقابل عمل سمجھا جانے لگا ہے۔ کیمیائے سعادت میں فرماتے ہیں۔ ’’اور یاد رکھو تخم فساد اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ مرد عورتوں کے ساتھ بیٹھیں یا عورتیں مردوں کی مجلس میں شرکت کریں یا دعوتوں اور ضیافتوں میں بے حجابانہ انہیں دعوت نظارہ دیا کریں۔ عورتوں کا صرف چادر یا نقاب اوڑھ لینا بھی کافی نہیں بلکہ اگر سفید چادر ہو اور نقاب پرتکلف ہو تو شہوت کی تحریک شدید تر ہوتی ہے۔ (فیشن اپنا اپنا پسند اپنی اپنی تک محدود نہیں رہتی) اور عین ممکن ہے کہ اس لباس میں وہ کھلے چہرے کی نسبت اور بھی زیادہ پرکشش دکھائی دینے لگے اور اگر سفید چادر اور پرتکلف نقاب سے واقعی یہی کچھ مقصود ہے تو یہ حرام ہے اور جو عورت اس طرح کرے وہ گنہگار ہے اور اس کے باپ بھائی اور شوہروغیرہ اگر انہیں خود اس کی اجازت دیں تو وہ اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘
بہرحال اب یہ ایک ایسا متعدی مرض لگ چکا ہے اور سارے معاشرہ میں گھر گھر وبا پھیل چکی ہے۔ عورت بے چاری اس قدر انارکی میں مبتلا کی جاچکی ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت کو اپنا مقدر سمجھ چکی ہے اس کے علاوہ آزادی عزت و آبرو کا تصور کرہی نہیں سکتی ہے۔ وہ اپنے گھر کا خرچ چلانے کیلئے طرح طرح کے پیشے اختیار کرنے پرنہ صرف مجبور بلکہ مخصوص ہوچکی ہے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت ان کے ہاتھوں سے نکل کر استانیوں کے ہاتھ میں پہنچ چکی ہے۔ آج مغرب جس اخلاقی مصیبت اور سماجی بلاؤں سے کراہ رہا ہے مشرق اس کو دیکھتا ہے‘ پڑھتا ہے اور پھر انہی کی نقل کرتا ہے غلط ہو یا صحیح سب چلتا ہے… سب ٹھیک ہے… چلنے دو… نفسیاتی امراض کے یہ سب شکار ہیں یا نہیں… آپ کا خیال ہے؟؟؟ اگر ایک فرد ذہنی مریض ہو جائے تو ڈاکٹر حکیم اس کا علاج کردیں گے مگر جب قوم کی قوم ذہنی اور نفسیاتی مریض بن جائے اس کے ڈاکٹر اور حکیم ان سے زیادہ اس مرض میں مبتلا ہوں تو ایسے ڈاکٹر بھی علاج وہی تجویز کریں گے جو مغرب سے امپورٹ کیا گیا ہو۔ آپ مانیں یا نہ مانیں نفسیاتی امراض کاماہر آج اسی مرض میں مبتلا ہوکر اپنی جان دے رہا ہے جب طبیب خود ہی مریض بن جائے کون کس کی دوا کرے؟ تمام مغربی ممالک جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں سب نے اس کا اعتراف کرلیا ہے۔ امریکہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہر چار آدمی پر ایک آدمی ذہنی مرض میں مبتلا ہوچکا ہے اور ہمارے حساب کے مطابق ہمارے پاس آنے والے حضرات و خواتین بشمول ماہرین نفسیات ڈاکٹر اور حکیم قریب قریب سب ہی ذہنی بلوغ اور جنسی اعتدال ختم کر بیٹھتے ہیں۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا’’ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیرمحرم مردوں سے گفتگو کرے‘ (جوکہ آج کل گھریلو ناچاقیوں کا سبب بن رہی ہیں) اور اگر اتفاقاً کوئی موقعہ آن ہی پڑے تو درشتی اور روکھے پھیکے لہجہ سے (جس میں ذرا بھی لوچ تصنع اور کشش اور مغالطہ کا جذبہ کارفرما نہ ہو) یہ کوئی بداخلاقی نہیں ہے بلکہ تہذیب اور اخلاق اور شرافت کا اعلیٰ نمونہ ہے کہ عورت کا وقار اور تحفظ اسی میں ہے ویسے تو ہی اگر نہ چاہے تو حیلے ہزار ہیں۔ جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’اگر تم تقویٰ اختیار کر وتو تم (نامحرم مرد سے) بولنے میں (جبکہ بضرورت بات کرنا پڑے) نزاکت مت اختیار کرو (جس سے) ایسے شخص کو (طبعاً) خیال فاسد پیدا ہونے لگتاہے جس کے قلب میں کجی اور خرابی ہے۔‘‘ قاعدہ (عفت) کے مطابق بات کرو۔‘‘ (سورۂ احزاب آیت نمبر 32)
واہ واہ سبحان اللہ! کیا بلند اور برتر مقام اور رتبہ اللہ پاک نے عورتوں کو عطا فرمایا ہے۔ اس آیت پاک میں آج کل کے شیونیزم (شیخی بازی‘ اکڑپھوں) کا منہ توڑ جواب ہے۔ واقعی ہماری ماں‘ بہن‘ بیٹیاں‘ نامحرم غیرمردوں سے کیوں دب کربات کریں۔ انہوں نے ان کو کیا زرخرید کنیز سمجھ رکھا ہے؟ کھلا ہوا تجربہ ہے جو عورتیں اس آیت پاک پر عمل کرتی ہیں تقویٰ اختیار کرتی ہیں غیرمردوں کے رعب میں یا دھوکہ میں نہیں آسکتی ہیں اور جو عورتیں اس تعلیم پر کاربند نہیں ہیں مرد ہمیشہ ان کو سبز باغ دکھاتے رہتے ہیں اور وہ ان کے جھانسے میں جلد آجاتی ہیں۔ ان عورتوں کی عام طورپر عجیب فطرت بن جاتی ہے۔ یہ غیرمردوں سے تو اخلاق اور تہذیب کے نام پر نرم خو ایئر ہوسٹس یا سیلز گرل کی طرح بنی رہتی ہیں لیکن اپنے محرم مردوں سے تند خو اور زود رنج رہتی ہیں ممکن ہے آپ کے ساتھ ایسا معاملہ نہ ہو لیکن ایسی ہی بات ہے… آپ نظر انداز کرلیں لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے/سکتیں۔
بشکریہ ماہنامہ عبقری


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں