برما:نسلی فسادات کے بعد ہزاروں مسلمان بےگھر

برما:نسلی فسادات کے بعد ہزاروں مسلمان بےگھر

برما میں اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ اہلکار اشوک نگم کا کہنا ہے کہ ملک کے مغربی علاقے رخائن میں تازہ نسلی تشدد کی وجہ سے بائیس ہزار افراد بےگھر ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر روہنگیا مسلمان ہیں۔

اتوار کو خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئےانہوں نے کہا سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں ہفتے رخائن میں بودھ آبادی اور روہنگیا مسلمانوں کے مابین پرتشدد جھڑپوں کی وجہ سے بائیس ہزار پانچ سو ستاسی افراد کو اپنا گھربار چھوڑنا پڑا جبکہ چار ہزار چھ سو پینسٹھ مکانات کو آگ لگائی گئی۔
اشوک نگم کا کہنا تھا کہ بےگھر ہونے والوں میں سے اکیس ہزار سات سو مسلمان تھے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ بائیس ہزار افراد ابھی اسی علاقے میں ہیں اور انہوں نے نقل مکانی نہیں کی ہے۔ کشتیوں پر رہنے والے افراد ان کے علاوہ ہیں جو تشدد کی وجہ سے ریاستی دارالحکومت ستوے کی جانب چلے گئے ہیں‘۔
یاد رہے کہ جمعہ کو برما میں حکام نے کہا تھا کہ ملک کے مغربی حصے میں بودھ آبادی اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات میں کئی دیہات اور شہروں کے کئی حصے جلائے گئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ تازہ فسادات کے دوران اسّی افراد مارے گئے جبکہ ہزاروں روہنگیا مسلمان، جن کے پاس شہری حقوق نہیں ہیں، سمندر کے راستے نقل مکانی کرگئے ہیں اور ریاستی دارالحکومت ستوے کے نزدیک ایک جزیرے پر پھنسے ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے برما کے مغربی علاقوں میں نسلی فسادات میں ہونے والی تباہی کے تصویری ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں کیاک پیو نامی ساحلی قصبے میں پینتیس ایکڑ کے علاقے کو جلا کر تباہ کر دیا گیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس تازہ تشدد کے دوران آٹھ سو سے زائد مکانات اور ہاؤس بوٹس نذرِ آتش کی گئی ہیں۔
بی بی سی کے ایشیا کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ کا کہنا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے جو سیٹلائٹ تصاویر دی ہیں، اس سے مغربی برما میں ایک کمیونٹی کی زبردست بربادی کے پختہ ثبوت ملے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے برما کی حکومت سے رخائن میں تشدد روکنے کے مزید کوششیں کرنے کے لیے بھی کہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ایشیا فل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ ’برما کی حکومت کو راخائن کے علاقے میں حملوں اور تشدد کا سامنا کرنے والی روہنگیا آبادی کو فوراً تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق ’جب تک حکام تشدد کی بنیادی وجوہات کا حل تلاش نہیں کرتے حالات مزید خراب ہی ہوتے رہیں گے‘۔
رخائن کے علاقے میں رواں برس جون میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد پرتشدد جھڑپوں کے یہ تازہ واقعات ہیں۔ ہنگامی حالت کے نفاذ سے قبل اس علاقے میں جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ بڑے پیمانے پر روہنگیا مسلم آبادی کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
رخائن میں بدھ مت اور مسلمانوں کا طویل عرصے سے اختلاف رہا ہے۔ اس ریاست میں رہنے والے زیادہ تر مسلمانوں میں روہنگيا کہلاتے ہیں اور برمی حکومت روہنگيا لوگوں کو غیر قانونی طور پر نقل مکانی کر کے آنے والے قرار دیتی ہے۔
اگست میں حکومت نے بدھووں اور مسلمانوں کے درمیان تشدد کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا۔برمی حکومت اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی قیادت میں تحقیقات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں