لیبیا کے سابق مرد آہن کا سب سے چھوٹا بیٹا خمیس القذافی ہلاک

لیبیا کے سابق مرد آہن کا سب سے چھوٹا بیٹا خمیس القذافی ہلاک

لیبیا کے مقتول رہنما کرنل معمر القذافی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے خمیس القذافی ہفتے کے روز ہونے والی جھڑپوں میں لگنے والے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔

العربیہ سے بات کرتے ہوئے لیبیا کی قومی کانگریس کے چیئرمین محمد المقریف نے بتایا کہ خمیس القذافی کو اپنے والد کے آخری محفوظ ٹھکانے بنی ولید سے زندہ گرفتار کیا گیا۔ انہیں مصراتۃ میں انقلابیوں کی فوجی کونسل کی حطین بٹالین نے پکڑا تھا۔ انہیں شدید زخمی حالت میں بذریعہ ہیلی کاپٹر مصراتۃ منتقل کیا گیا۔

بنی ولید سے صحافی احمد القاضی نے ایک بیان میں بتایا کہ معمر القذافی کے گرفتاری اور ان کے اقتدار کے خاتمے کی پہلی برسی کے موقع پر ان کے سب سے چھوٹے بیٹے خمیس القذافی کی حراست کی خبریں تواتر سے آ رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ خمیس کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔ ان کی دائیں ٹانگ اور بائیں ہاتھ پر شدید زخم آئے۔

گرفتاری کے بارے میں صحافی احمد القاضی کا کہنا تھا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق خمیس القذافی ادویہ لیجانے والے ٹرک کے ذریعے بنی ولید سے فرار ہو رہے تھے کہ مخبری ہونے پر ان کا پیچھا شروع کر دیا گیا۔

اس سے پہلے لیبی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ معمر القذافی کے سابق ترجمان کو طرابلس سے پچاس کلومیٹر دور ترھونہ شہر کے ایک ناکے پر گرفتار کیا گیا۔

حکومت نے ایک مختصر بیان میں تصدیق کی تھی کہ ترجمان ابراہیم کو لیبیا کی عبوری حکومت کے فوجی اہلکاروں نے ترھونہ شہر کے ناکے پر حراست میں لیا۔

لیبیا: مقتول قذافی کے سابق ترجمان موسیٰ ابراہیم گرفتار


لیبیا کے سابق مقتول صدر معمر قذافی کی حکومت کے ترجمان موسیٰ ابراہیم کو دارالحکومت طرابلس کے جنوب میں واقع قصبے سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

لیبی وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے ہفتے کے روز جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ”موسیٰ ابراہیم کو ترہونہ میں حکومتی فورسز نے گرفتار کیا ہے اور انھیں تفتیش کی غرض سے طرابلس منتقل کیا جا رہا ہے”۔ ترہونہ طرابلس سے ستر کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔

موسیٰ ابراہیم سابق صدر معمر قذافی کی حکومت کے خلاف مسلح عوامی بغاوت کے عرصہ میں سرکاری ترجمان تھے۔ وہ روانی سے انگریزی بولتے ہیں اور وہ طرابلس کے لگژری ہوٹل میں کم وبیش روزانہ ہی نیوز کانفرنسیں کیا کرتے تھے۔ اسی ہوٹل میں غیر ملکی صحافی مقیم تھے۔

وہ اگست 2011ء میں طرابلس میں سابق صدر کے اقتدار کی علامت باب العزیزیہ پر باغی جنگجوؤں کے قبضے کے بعد روپوش ہو گئے تھے۔ ان کی ماضی میں بھی گرفتاری کی اطلاعات منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ ان کی گرفتاری کی اطلاع قذافی کی ان کے آبائی شہر سرت میں گرفتاری اور قتل کی پہلی برسی کے موقع پر سامنے آئی ہے۔

معمر قذافی کو 20 اکتوبر 2011ء کو سرت میں سابق باغی جنگجوؤں کے ایک ہجوم نے بڑی بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔ ان کے وحشیانہ انداز میں قتل کا ایک سال کے بعد بھی معما حل نہیں ہو سکا اور ان کے قاتلوں کے بارے میں نت روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ چند روز قبل یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ انھیں کسی لیبی باغی نہیں بلکہ فرانسیسی خفیہ ایجنسی کے ایک ایجنٹ نے سابق صدر نکولا سارکوزی کے حکم پر قتل کیا تھا۔

طرابلس
العربیہ ڈاٹ نیٹ، ایجنسیاں


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں