’اسلام قابل تبلیغ ہے مذہب، مسلک اورمشرب نہیں’

’اسلام قابل تبلیغ ہے مذہب، مسلک اورمشرب نہیں’

نوٹ: ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین مولانا محمدسالم قاسمی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کی پوری زندگی برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کیلیے وقف ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے فیض سے سیراب ہونے والے ذمہ داران دارالعلوم زاہدان، ایران نے چند سال قبل آپ کو ایرانی اہل سنت کی سالانہ تقریب ختم بخاری میں مدعو کیا تھا۔ پیران سالی کے باوجود مولانا قاسمی دامت برکاتہم نے سفر کی مشقت برداشت کرتے ہوئے 2006ء کو زاہدان پہنچ گئے جہاں خواص اور عوام نے آپ سے استفادہ کیا۔
آپ کی علمائے کرام کے لیے پرسوز اور سدابہار تقریر “سنی آن لائن” کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے:

الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین؛ امابعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ان الدین عنداللہ الاسلام ومااختلف الذین اوتوالکتاب الا من بعدما جاء ھم العلم بغیا بینھم۔
حضرت شیخ الاسلام، علمائے کرام بزرگان محترم! مجھے حکم دیاگیا ہے کہ اس مبارک مجلس میں کچھ کلمات عرض کردوں۔ اگرچہ میرے لیے بڑی مشکل پیدا ہوئی ہے کہ اتنے جلیل القدر علماء کی موجودگی میں مجھ جیسا ایک کم سواد طالب علم ان کے سامنے کچھ عرض کرے، لیکن بزرگوں کے حکم کی تعمیل میں یہاں بیٹھ گیا۔
یہ خطاب براہ راست حضرات علمائے کرام سے ہے، یہ خطاب عوامی نہیں ہے لہذا موضوع بھی وہی ہے جن سے خطاب متعلق ہے۔ اس بارے میں چند بنیادی باتیں عرض کرنی ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو علم کی دولت سے نوازا ہے۔ یہ ایسی دولت ہے جس کی وجہ سے ’ملت‘ کی فکری، اعتقادی، علمی اور عملی ذمہ داریاں آپ پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ وارث ہیں انبیائے کرام علیہم السلام کے اور ملت کی ہدایت و رہنمائی آپ کی ذمے داری ہے۔ انبیائے کرام کے ساتھ ’مال‘ نہیں ہوتا ’کمال‘ ہوتاہے۔ اللہ تعالی نے اس کمال کا کچھ حصہ آپ کو عطا فرمایاہے، اسی لیے یہ ذمہ داری غیرمعمولی ہے۔ اسی ذمے داری کو پیش نظر رکھ کر عصرحاضر کے تجربات کے تناظر میں مجھے چند کلمات عرض کرنی ہے۔ حالات اور وقت کے اندر چونکہ تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ایسے انقلابات آتے ہیں جن کی وجہ سے اوہام، افکار ، خیالات، تجربات اور تحریکات میں فرق پیدا ہوتارہتا ہے۔ ذہنی تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں اس لیے قدرتی طور پر ذمے داریوں کے احساس میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے اور اس کا شعور بھی پیدا کرنا پڑتاہے۔
جہاں تک دین کا تعلق ہے تو دین صرف اس بات کا نام ہے جو اللہ کی طرف سے مْنزل ہے، اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ دین فقط اللہ کی ارشادات کانام ہے جس میں فکر اور شعورِ انسانی کو شامل نہیں، عام فکر اپنی جگہ فکرنبوت کو بھی اس میں شامل نہیں فرمایا گیا۔ دین براہِ راست اللہ کی طرف سے ہے اور عقلِ انسانی کو اس میں ادنی سا دخل بھی نہیں ہوتا۔ عقلِ انسانی کا دخل کہاں ہوتاہے؟ جب حقیقت سامنے آجائے تو انسانی عقل شبہات، اعتراضات اور تلبیسات کا جواب دیتی ہے۔ حق کو مکمل طور پر واضح کرنا عقل انسانی کا کام ہے۔ اس لیے اللہ نے دین کو عقل سے بالاتر رکھا۔ دین کو عقل سے تطبیق دینے کیلیے حدیث آئی اور نبی کریم(ص) نے دین سب کو سمجھایا۔
قرآن پاک دنیا میں وہ واحد کتاب ہے جو ایک نقطے کے فرق کے بغیر اب تک موجود ہے اور ابد تک ایسا ہی رہے گا۔ آپ(ص) نے قرآن پاک کو اسی شکل میں ہم تک پہنچایا اور آپ کو بتایا گیا کہ ایک نقطے کا فرق بھی نہیں کرسکتے۔ ’’لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ و قرآنہ فاِذا قَراناہ فاتبع قْرآنہ ثم ان علینا بیانہ۔‘‘ آپ(ص) جلدی فرماتے یاد کرنے میں، لیکن جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لاکر فرماتے ہیں: یامحمد! فکرمت کرو، قرآن پاک کو آپ کے قلب مبارک میں ایک لمحے کے اندر محفوظ کرانا ہمارا کام ہے۔ الفاظ کی امانات آپ کی سپرد کی گئی؛ پھر ان کی تشریح اور بیان بھی ہمارا کام ہے۔ نبی کریم(ص) کی ذات اقدس کو الفاظ اور معانی دونوں کا امین بنایاگیا۔ فرمایا گیا: ’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیہم لعلہم یتفکرون‘‘۔ ہم نے قرآن آپ پر نازل کیا تاکہ آپ کھل کر اس کی مرادات اور معانی جو ہم نے متعین کیے لوگوں تک پہنچائیں۔ جب آپ نے مرادات انسانیت تک پہنچائی تو اربابِ علم ان معانی میں غور کریں گے تو وہ جو حقائق اور نکات نکالیں گے اور کتابیں مرتب کریں گے تو وہ تمام نکات اور باتیں معتبر ہوں گی۔ لیکن اگر مرادربانی جو کلامِ رسول(ص) کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے سے ہٹ کر کوئی بات ہو، نئی سے نئی بات ہو تو وہ دیوار سے ماردینے کے لائق ہوگی۔ یہیں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تفاسیر جن کی کوئی حد نہیں کو اسی پیمانے میں دیکھاجائے، اگر کسی مفسر نے مرادربانی کو جو کلام نبوی(ص) سے منقول ہوتی ہے مدنظر رکھے اور اسے سمجھ لے تو اس کے بعد جو نئے خیالات و افکار اور علوم سامنے آئیں تو معتبر ہوں گے۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ پندرہ صدیوں میں لاکھوں علما نے اس میں غور وخوض کیا ہے اور بے شمار نکات و علوم اس سے نکالے ہیں۔ علماء علوم و معارف نکالتے ہیں اور ہمیشہ نکالتے رہیں گے؛ قیامت تک قرآن پاک سے علوم و حکمتیں نکالنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ قرآن کا ظاہر و باطن ہوتاہے اور علماء اس میں غور وخوض کریں گے۔ خلاصہ یہ کہ دین وہی ہے جس میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا، قرآن کے الفاظ ومعانی کلام رسول(ص) سے نقل ہوئے اور پھر حضرات صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین و دیگر علماء نے اس میں غور کیا اور انہوں نے جو حقائق نکالے وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔
قرآن پاک انسان کی ہدایت کیلیے ایک کامل کتاب ہے جس میں انسان کی ہدایت کیلیے مجمل طور مسائل بیان ہوئے؛ ان احکام و مسائل کو حضرات فقہائے کرام نے بعد میں بیان فرمایا۔ چونکہ جب قرآن پاک کی حقانیت کو دنیا کی قوموں نے دیکھی تو وہ راہ راست پر آگئیں، اسلام دین فطرت ہے۔ لیکن ان کے اپنے اپنے مذاہب تھے اور ان کی رسومات مختلف تھیں، تو ان کے ذہنوں میں شبہات و سوالات پیدا ہوئے جن کے جواب فقہائے کرام نے دیا۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد، امام مالک اور دوسرے فقہاء رحمہم اللہ نے قرآن پاک میں ڈوب کر غور وخوض سے قانونی طور پرمسائل نکالے۔ یہ فقہ اسلام کا قانون ہے۔ یہ دنیا کے واحد قانون ہے جو انسانی زندگی کے ہر جز پر حاوی ہے۔ آپ کا اٹھنا، بیٹھنا، حرکت و سکون، دیکھنا اور سننا غرض ہر عمل ایسا نہیں جس کاحکم کتاب اللہ کے اندر موجود نہ ہو اور علمائے کرام نے اسے نہ نکالا ہو۔ فقہاء نے احکام کی تخریج میں غیرمعمولی محنت کی اور ان کی کمال دیانت کی حد دیکھیے کہ جب دلایل نقل وعقل اتنے ہوگئے کہ انہیں سوفیصد اطمینان ہوگیا پھر انہوں نے اس رائے کو اپنے مذہب کا جزو بنایا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے فرمایا: ’نحن علی الصواب مع احتمال الخطا والغیر علی الخطا مع احتمال الصواب۔‘ قرآن وسنت کی روشنی میں جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے، اسے ہم نے دیانتا صحیح سمجھ کر پیش کیا لیکن عقل انسانی سے خطا اور صواب دونوں محتمل ہیں۔ خطا کا احتمال ضرور ہے۔ دوسرے فقہا جن کو ہم خطا پر سمجھتے ہیں ان کی خطا میں صواب کا احتمال بھی ہے۔ یہ دیانت کی انتہاء ہے کہ اپنی پوری محنت و غور کے بعد بھی کہہ رہے ہیں سوفیصد صواب ہونے کے اطمینان کے باوجود خطا کا امکان بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک امام کا متبع دوسرے امام کی اتباع کرسکتاہے اس کے اقتدا میں نماز پڑھ سکتاہے۔ چونکہ اختلاف فروع میں ہے اصول میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب فقہ مرتب ہوگئی تو ایک مسئلہ سامنے آگیا کہ اس وقت کے علماء نے تبلیغ کرنے اور پیش کرنے کی چیز یعنی دین کو چھوڑ کر مذہب کی تبلیغ شروع کردی۔ میں جسارت کرکے عرض کررہاہوں کہ اس وقت کے علما میں ایسا داعیہ پیدا ہوا کہ اپنے فقہی مذاہب کی تبلیغ و تشہیر کریں۔ ہر امام کے متبعین نے اپنے ’مذہب‘ کو پیش کردیا، یہ دین نہیں تھا مذہب تھا۔ دین و مذہب ایک چیز نہیں ہے۔ مذہب کے اندر عقل انسانی کا دخل ہے لیکن دین میں عقل انسانی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ دین کے ساتھ پہلی ناانصافی یہ ہوئی کہ مذہب کو اس کا قائم مقام بنادیاگیا۔
ظاہر ہے نتیجے میں علم کے اندر مزید انحطاط پیدا ہوا اور اس میں طبقات پیدا ہوئے۔ صدیوں سے کوششیں اور کاوشیں کی گئیں کہ دنیاکے سامنے اپنے فقہی مذہب کو برتر ثابت کیا جائے حالانکہ حق یہ تھا کہ دین کی برتری کے اثبات کیلیے محنت اور کوشش کی جاتی۔ برتر رہنے والی چیز دین تھا فقہ نہیں!
یہ انحطاط علمی آگے بڑھا اور مذہب کے بعد اس کے اندر ’مسلک‘ پیدا ہوا۔ علمائے کرام نے دین اور مذہب کی پیروی کرتے ہوئے اپنے آس پاس کے حالات کے تناظر میں کوئی رہنمائی نکالی تو ’مسلک‘ وجود میں آیا۔ حالات کو سامنے رکھ دین و مذہب کی روشنی میں فتوا دیا جائے تو مسلک وجود میں آتاہے، ظاہر ہے اس کا درجہ مذہب سے بھی نیچے ہے۔ اب کیا ہورہاہے کہ جیسے کہ پہلے والوں نے اسٹیج پر کھڑا ہوکر دین کے بجائے مذہب کی تبلیغ کی، لوگ دین اور مذہب دونوں کو پیچھے چھوڑکر دنیا کے سامنے اپنے مسلک کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ دین کی جگہ کوئی چیز نہیں لے سکتی۔ دین کی حقانیت میں ادانی درجے کی شک وشبہہ نہیں ہے۔ لیکن مذہب و مسلک دونوں میں عقل انسانی کا دخل ہوتاہے۔
یہ ہوسکتاہے کہ کسی کے طلب حق کے اندر کوئی کمی ہو اور وہ دین کو نہ مانے، لیکن یہ ہوہی نہیں سکتا کہ دلائل کی بنیاد پر کوئی دین حق کو رد کردے۔ اس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ الحمدللہ عہدنبوت میں اور بعد میں بھی اسلام کے مخالفین جن میں اہل علم و فکر اور اہل نظر موجود تھے دلائل کا کوئی ذخیرہ پیش نہیں کرسکے جو اسلام کے کسی ایک حکم کوچیلنج کرسکیں۔
قابل تبلیغ چیز صرف دین ہے۔ لوگوں نے مذہب اور پھر مسلک کو قابل تبلیغ بنادیا جن میں انسانی عقل داخل ہے؛ اگرچہ یہ عقل بہت پاکیزہ و سالم ہی کیوں نہ ہو۔ بہرحال عقل عقل ہی ہوتی ہے۔ مذہب میں علمائے کرام میں اختلاف پیدا ہوا، یہ اختلاف خود اس بات کی دلیل ہے کہ مذہب کا درجہ دین سے نیچے ہے۔ جس بات میں اختلاف پیدا ہوجائے وہ قابل تبلیغ نہیں ہے۔ اسی لیے آپ کو حق ہے کہ دلائل کی بنیاد پر آپ حنفی، شافعی، حنبلی یا مالکی بن جائیں لیکن اس کاحق ہرگز آپ کو نہیں دیاجاسکتا کہ آپ لوگوں سے کہیں حنفی بن جاؤ! شافعی بن جاؤ! مذہب و مسلک کی تبلیغ کا کوئی حق کسی کو نہیں ہے۔ مسلک جسے آپ نے بنایا اور ظاہر ہے اس میں وہ گہرائی اور تعمق نہیں ہے جو امام ابوحنیفہ اور امام شافعیؒ کا تھا اس کی تبلیغ کیسے کی جاسکتی؟ ایسے مسلک کو دین کا قائم مقام بنایاجائے ظاہر ہے یہ بہت بڑا ظلم ہوگا۔
مجھے یہ کہنے دیجئے کہ جس دور میں ہم رہ رہے رہیں علما انحطاط کی اس حد پر آگئے ہیں کہ اپنے مسلک کی تبلیغ شروع کردیے۔ مسلک کو دین کا درجہ دیاگیا؛ گویا کہا گیا کہ لوگو تمہاری نجات ہمارے مسلک میں ہے۔ حالانکہ نجات مسلک پر موقوف نہیں ہے دین پر ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ یہ امت جس کی کتاب ایک ہے، قبلہ ایک، پیغمبر ایک اور خدا ایک ہے یہ ملت ایک نہیں ہے! ہر طلوع ہونے والا سورج ملت اسلامیہ میں مزید تفریق کی خبر لیکر آتاہے۔ یہ سب ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہوا؛ ہم نے پہلے دین کا درجہ دیا مذہب کو پھر مسلک کو اس کا مقام دیا۔ آگے بڑھ کر ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس نے مسلک سے نیچے اتر کر ’مشرب‘ کی تبلیغ کررہاہے۔ کم از کم مذہب دلائل کی بنیاد پر ہوتاہے لیکن مشرب محض ذوق کی بنیاد پر ہوتاہے۔ ایک شخص ایک بزرگ کا متبع ہے تو وہ چاہے پوری دنیا اس فرد کی اتباع کریں، یہ کیسے ہوسکتاہے؟ انحطاط علمی کہاں تک آچکاہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ خاتم الانبیا محمدرسول اللہ(ص) کا ارشاد ہے: ’’لایبقی علی ظہرالارض بیت مدر و لاوبر الا ادخلہ اللہ کلمۃ الاسلام بعز عزیز اوذل ذلیل‘‘۔ نیز ارشاد ہے: ’’لاتزال طائفۃ من امتی منصورۃ علی الحق لایضرہم من خذلہم ولا من خالفہم حتی یاتی امراللہ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا اس امت کے اندر ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ہمیشہ حق کو پیش کرے گا اور عزت وذلت سے بے پرواہ ہوکر دین کی تبلیغ کرے گا۔ الحمدللہ، یہ امت کیلیے خوشخبری ہے۔ جتنی بڑی غلطی ہوجائے، جماعت سے غلطی ہوجائے، لیکن پھر بھی ایک طبقہ دین کی تبلیغ اور حفاظت میں مصروف ہوگا۔ ایسے لوگ آپ کے اندر موجود ہیں، اگر میں آگے بڑھ کر عرض کردوں کہ آپ جن حضرات کے متبعین ہیں اور ان کا نام لے رہے ہیں، یہ ایسے حضرات تھے جنہوں نے دین حق کو اس کا واقعی مقام دیا۔ علمائے دیوبند نے مذہب کو مذہب اور مسلک کو مسلک کے مقام پر رکھا۔ جن لوگوں نے اس فرق مراتب کو قائم نہیں رکھا آج وہ دین سے بالکل محروم ہوچکے ہیں۔
آج علماء کی ایک ذمے داری یہ ہے کہ محنت کریں کہ اس تفریق کو ختم کریں؛ میرے ناقص خیال میں اس تفریق و انتشار کی بنیاد یہ ہے کہ لوگوں اور علماء نے دین کی جگہ مذہب اور پھر مسلک و مشرب کو اہمیت دی اور ان کی تبلیغ کی۔ جس ملک میں آپ رہتے ہیں اور جس ملک سے میں آیاہوں وہاں بھی متعدد مسالک موجود ہوسکتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے جو آپ کی خدمت میں عرض کی گئی۔ امت کے اندر اتحاد قائم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہ اتحاد کیسے حاصل ہوگا؟ اس کا حل یہ ہے کہ جو درجہ دین کا ہے وہ درجہ آپ دین کو دیدیں، مذہب اور مسلک کو بھی ان کے مناسب مقام دیدیں۔ قابل تبلیغ صرف دین ہے؛ دنیا کے سامنے آپ صرف دین کو پیش کریں۔ مذہب یا مسلک کا ہپیش کرنا آپ کا علمی و اخلاقی انحطاط ہوگا، یہ غلط عمل شمار ہوگا۔
دورحاضر میں ذرائع کی کثرت ہے؛ ایسے ذرائع ابلاغ پیدا ہوئے ہیں جو ایک لمحے میں آپ کی بات پوری دنیا تک پہنچاسکتے ہیں۔ اگر کوئی گمراہی و ضلالت کی بات ہو تو وہ پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے، اگر ہدایت کی بات کی جائے تو وہ بھی پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ آپ کا فرض بنتاہے کہ اس تفریق کو ختم کرنے کیلیے محنت کریں اور وہ طریقہ اختیار کریں جو نبی کریم(ص)، صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے اختیار فرمایا۔
آپ(ص) نے تین زمانوں کو خیرالقرون فرمایا؛ اپنے، صحابہ اور تابعین کے زمانوں کو۔ اس سے معلوم ہوتاہے ان زمانوں میں خیر کا غلبہ تھا شر مغلوب تھا۔ لیکن بعد کے ادوار میں کبھی شر غالب ہوتا کبھی خیر۔ جس دور میں آپ زندگی گزار رہے ہیں یہ دورغیرمعمولی ہے اور آپ سے غیرمعمولی محنت چاہتاہے۔ آپ کو اس راستے پر واپس لوٹ آنا ہے جو راہ محمدی ہے۔ مذہب و مسلک کو اس وقت پیش کیا جاتاہے جب ضرورت ہوتی ہے، یہ کام انفرادی طور پر ہوتاہے۔ دلائل کی بنیاد پر آپ اپنا مذہب یا مسلک پیش کرسکتے ہیں۔
علماء کی ذمہ داریاں غیرمعمولی حدتک بڑھ چکی ہیں؛ کفار اپنی پوری قوت اور اتحاد کے ساتھ ہم پر حملہ کرتے ہیں، وہ اپنے کفر میں متحد ہیں، ہمیں بھی اتحاد کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ مت سوچیں کہ ترقی صرف حقانیت کے اندر ہوتی؛ ترقی کفر و ضلالت میں بھی ہوسکتی ہے۔ کفر نئے دلائل اور خیالات کے ساتھ میدان میں آتاہے؛ آپ بھی عصرحاضر کے مزاج کو سمجھ کر دین کو پیش کریں جس سے آج کی دنیا کا مزاج مطمئن ہوسکے۔
نبی کریم(ص) کا ارشاد ہے کہ میری امت تہتر گروہوں میں بٹک جائے گی، یہ کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ سب جہنمی ہیں سوائے ایک کے، صحابہ کرامؓ نے اس واحد جماعت کے بارے میں پوچھا تو آپ(ص) نے فرمایا: ’’ماانا علیہ واصحابی‘‘، اسی سے ’اہل سنت والجماعت‘ کا ثبوت ہے جس کے آپ حامل ہیں۔
آپ سے اختلاف کرنے والے لوگ دوقسم کے ہیں؛ ایک جو باطل پر ہیں اور دوسرا وہ جو خطا پر ہیں۔ جو خطا پر ہیں آپ ان کو ’غیر‘ مت سمجھیں۔ وہ آپ کی برادری میں ہیں لیکن خطا پر ہیں۔ ’’المجتہد یخطی ویصیب فمن اخطا فلہ اجرواحد ومن اصاب فلہ اجران‘‘۔ جو حق کی راہ میں اجتہاد کرے، دلائل کی بنیاد پر طلب حق میں محنت کرے مگر خطا پر رہے اس کیلیے ایک اجر ہے اگر صواب پر ہو تو اس کیلیے دو اجر ہے۔ لہذا آپ کے مخالف اللہ سے ایک اجر لے رہاہے، وہ آپ کے خیال میں خطا پر ہے حقیقت میں شاید ایسا نہ ہو۔ اگر وہ تاویل فاسد کررہا ہے تو وہ خطا پر ہے لیکن آپ سے جدا نہیں ہے۔ تاویل فاسد کے جواب میں آپ تاویل صحیح پیش کریں؛ اگر اس نے مان لیا فبہا ورنہ آپ نے اپنا فرض پورا کردیا۔ یہاں لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی لیے یہ کہاجاسکتاہے کہ جہاں تک مکاتب فکر کا تعلق ہے تو یہ کثرت علم کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ آپ ایک نظر ڈالیں یہودیت پر جو آپ سے تین ہزار سال پہلے وجود میں آئے لیکن ان میں ایک مکتب فکر بھی موجود نہیں ہے۔ بلاخوف تردید کہاجاسکتاہے ان میں کوئی مکتب فکری نہیں ہے۔ عیسائیت جو دنیا کی عجیب قوموں میں سے ہے اس میں صرف دو مکتب فکر پیدا ہوئے۔ ان کے پاس علم کی دولت نہیں ہے۔
یہ باتیں آپ پہلے سے بھی جانتے تھے لیکن اس طالب علم کو حکم دیاگیا تھا اسی لیے آپ کی خدمت جسارت کرکے چند باتیں عرض کردی۔
لہذا یاد رکھیں تبلیغ کیلیے صرف دین کا انتخاب کریں، افہام و تفہیم کیلیے مذہب ہے جبکہ حالات کے پیش نظر مسلک کام آتاہے۔ مسلک ایسی کوئی چیز نہیں جس پر نجات موقوف ہو۔ نجات صرف دین پر ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ اس لیے کہ اس کے محافظ میں اور آپ نہیں ہیں بلکہ اللہ نے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ مجھے اور آپ کو اللہ نے دین کا ’محافظ‘ نہیں بنایا بلکہ ’خادم‘ بنایاہے۔ ارشاد ہے: ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘۔ جب اس کی حفاظت اللہ کررہا ہو تو کون مٹاسکتاہے اس کو؟ آپ لوگوں کے خیالات، افکار، تہذیب اور کلچر کو پیش نظر رکھ کر دین کی تبلیغ کردیں۔ ان کے خیالات سے متاثر نہ ہوں جیسا کہ عباسیہ کے دور میں یونانی فنون عالم اسلام میں اس قدر چھا گئے کہ بہت سارے علماء بھی شکار ہوگئے۔ بعض کو دین منطق کے خلاف لگ رہا تھا؛ اس شبہے کی رد میں امام رازی کو اللہ نے لایا جس نے اسی منطق کو بروئے کار لاکر اسلام کی حقانیت ثابت کردی۔ جو منطق کی کتابیں آج کل مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں یہ درحقیقت اس دور کے مزاج کو سامنے رکھ کر لکھی گئیں اور اسلام کا دفاع کیا گیا۔ اخیر دور میں حضرات علمائے کرام نے دین حق کی تبلیغ کا صحیح طریقہ ہمارے سامنے رکھا، اللہ ان کی قبروں کو پرنور فرمادے اور ان کی مکمل مغفرت فرمادے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہر دور میں ایک طبقہ دین پر سختی سے قائم رہے گا، الحمدللہ آپ بھی اسی طبقے میں ہیں جو دین کے اندر ادنی تبدیلی کو بھی گوارا نہیں کریں گا۔ موضوع اپنی جگہ طویل ہے لیکن حضرت کے حکم کی تعمیل میں یہ کلمات گزارش کردی۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں