اقوام متحدہ مسلم ممالک کی قرارداد کو قانونی حیثیت دے

اقوام متحدہ مسلم ممالک کی قرارداد کو قانونی حیثیت دے

اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے توہین مذاہب کے خلاف پاکستان کی پیش کردہ قرارداد کی اتفاق رائے سے منظوری یقینی طور پر ایک اہم پیش رفت ہے جس سے مسئلے کے حل کے لیے درست سمت میں آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
57 اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا یہ اجلاس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 67 ویں اجلاس کے موقع پر ہوا۔
پاکستانی وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے امریکا میں بنائی جانے والی گستاخانہ فلم کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی جس میں نفرت انگیز فلم کو مسلم دنیا میں تشدد اور فساد بھڑکانے کی گھناوٴنی حرکت قرار دیتے ہوئے دنیا کی تمام حکومتوں سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موٴثر اقدامات اور نتیجہ خیز قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں اس گھناوٴنی حرکت کے حامیوں کی مذمت کے لیے عالمی برادری کو مل کر کھڑا ہونا چاہیے اور تمام مذاہب کے عالمی سطح پر احترام کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
انہوں نے مذہب کو پل کے طور پر استعمال کرکے انسانی برادری کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا ذریعہ بنانے کی ضرورت کا اظہار کیا۔
اجلاس کے دیگر شرکاء نے بھی گستاخانہ فلم کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار کے نام پر گستاخانہ فلم عالمی انسانی حقوق کے منشور کی خلاف ورزی ہے جس میں مذہب کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔
گستاخانہ فلم اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوششوں پر مشتمل دیگر واقعات محض دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کا معاملہ نہیں ہیں بلکہ دنیا کا ہر مہذب اور شائستہ شخص ایسے اقدامات سے فطری طور پر کراہت محسوس کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مذہب کی توہین پر مشتمل اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ کی جانب سے پچھلے برسوں میں پرزور الفاظ پر مشتمل قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق 2010ء اور 2011ء میں اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل نے مذاہب، مذہبی علامات، محترم شخصیات،اور اسلام یا مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوششوں کو روکنے کے حوالے سے دوقراردادیں منظور کی تھیں۔
پہلی قرارداد کو ”مذاہب کی توہین کے خلاف جنگ“ کا نام دیا گیا اور یہ انسانی حقوق کونسل کی منظور کردہ ہے۔
جبکہ مارچ 2011ء میں ایک اور قرارداد منظور کی گئی جس کا عنوان ہے”عدم برداشت،مذہب یا عقائد کی بنیاد پر تشدد کے لیے اکسانے یا توہین کرنے کے خلاف جنگ“۔
2010ء کی قرارداد میں خاص طور پر اسلام کے حوالے سے بھی چند نکات شامل کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ ”اس حوالے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ اسلام کو اکثر و بیشتراور غلط انداز سے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی سے منسلک کیا جاتا ہے۔“  قرارداد میں مذہبی تعصب اور منافرت کو فروغ دینے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کردار کی درستگی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
قرارداد میں بین الاقوامی حقوق انسانی کے قوانین کی دفعات نمبر 19اور 20 کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کو ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ دوسروں کی دل آزاری سے گریز اورقومی سلامتی، امن عامہ اوراخلاقیات کا لحاظ کرتے ہوئے استعمال کیا جانا چاہیے ۔
مارچ 2011ء کی قرارداد میں بھی مذاہب کو بدنام کرنے،انتہاپسند تنظیموں کے اقدامات، میڈیا کے رویے اور ایسے تمام اقدامات کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی ہے جو مذاہب یا عقائد کے خلاف ہوتے ہیں۔
اس سے پہلے 24 اکتوبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے ریاستوں پر ذمہ داری عائد کی تھی کہ وہ باہمی عزت اور احترام کو فروغ دیں اور بلاتفریق مذاہب اورثقافتوں کا احترام کریں۔
اقوام متحدہ کی ان قراردادوں میں اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ مذاہب کی توہین انسانی وقار اور انسانی حقوق کی توہین کے مترادف ہے اورایسے اقدامات سے سماجی تانا بانا بکھر سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی یہ قراردادیں مسلمانوں ہی کو نہیں ، دنیا کے ان تمام لوگوں کو جو عالمی انسانی برادری میں نفرت انگیزی کی کوششوں کے مخالف اور عالمی امن اور اخوت کے فروغ کے خواہاں ہیں، مثبت جدوجہد کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
اسلام کے خلاف شرپسند عناصر کی گھناوٴنی حرکتوں کی روک تھام کے لیے موٴثر قانون سازی ناگزیر ہے اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں موجود ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی توانائیوں اور وسائل کو بے نتیجہ پرتشدد احتجاج اوراپنے ہی ملکوں میں توڑ پھوڑ میں ضائع کرنے کے بجائے عالمی سطح پر بھی اور مغربی ملکوں میں بھی موٴثر قانون سازی کے لیے منظم طریقے سے سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔
اظہاررائے کی آزادی دنیا میں کہیں بھی بے لگام اور لامحدود نہیں ہوتی۔
پوری مغربی دنیا میں مختلف معاملات میں اظہار رائے کی آزادی کو محدود کیا گیا ہے۔
اس کی ایک بہت نمایاں مثال ہولوکاسٹ یعنی ہٹلر کے دور میں یہودیوں کے قتل عام کی داستان پر کسی بھی قسم کی تنقید کی ممانعت ہے۔
پوری دنیا میں یہودیوں کی مجموعی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہے لیکن منظم اور قانونی جدوجہد کے ذریعے انہوں نے ایک ایسے معاملے کو ہر قسم کی نکتہ چینی سے مبرّا قرار دلوانے میں کامیابی حاصل کی ہے جس کا براہ راست، مقدس ہستیوں، مذہب اور عقائد جیسے حساس ، جذباتی اور نازک امور سے کوئی تعلق نہیں۔
مسلمان ان کے مقابلے میں اب دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی ہیں، دنیا میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہوچکی ہے ، اس کے باوجود وہ اپنی مقدس ہستیوں کے ناموس کے تحفظ کے لیے کسی موثر قانون سازی میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں تو اس کی اصل وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کی جانب سے اپنی کوششوں کا درست سمت میں استعمال نہیں کیا گیا۔
امریکا اور برطانیہ میں جو مغربی دنیا کے لیے رجحان ساز ملکوں کی حیثیت رکھتے ہیں، مسلمان اب خاصی موٴثر حیثیت میں ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ میں بھی اب مسلمان نمائندے موجود ہیں جبکہ امریکا میں مسلمان بحیثیت ووٹر ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔
خود امریکا میں ایسی قانون سازی کی متعدد مثالیں موجود ہیں جن کے ذریعے آزادی اظہار کے حق کو محدود کیا گیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ 1919ء میں ” شینک بمقابلہ ریاست ہائے متحدہ “ نامی تاریخی مقدمے میں یہ اصول طے کرچکا ہے کہ ”آزادی اظہار کے حق کو جو تحفظ دستور میں انتہائی تاکید کے ساتھ فراہم گیا ہے، وہ کسی ایسے شخص کو نہیں دیا جاسکتا جو کسی تھیٹر میں غلط طور پرآگ لگ جانے کا شور مچاکر خوف و ہراس پھیلارہا ہو۔“
اقوام متحدہ کی قراردادوں اور مختلف ملکوں کے اپنے قانون ساز اداروں کے ایسے نظائر کی بنیاد پر امریکا اور برطانیہ سمیت پوری مغربی دنیا میں ایسی قانون سازی کی کوشش کی جانی چاہیے جن سے اسلام سمیت تما م مذاہب اور تمام اقوام کی مقدس ہستیوں کی توہین ممنوع قرار پائے۔
گستاخانہ فلموں اور خاکوں جیسے واقعات کی مستقل روک تھام کا یہی طریقہ نتیجہ خیز ہوسکتا ہے، پرتشدد احتجاجوں سے نہ اب تک کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے نہ آئندہ اس کا امکان ہے۔
اس کے برعکس یہ طرز احتجاج خود اسلام کے خلاف سازش کرنے والوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو تشدد کا علم بردار قرار دے کر مزید بدنام کریں۔
تاہم ضرورت ہے کہ ایسی شر انگیز ناپاک جسارتوں پر پُرامن احتجاج کر کے پاکستان ہی نہیں ملت اسلامیہ شدید ردعمل کا اظہار کرے لیکن اسلامی سربراہی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں منظور کی گئی متفقہ قرارداد کو اقوام متحدہ کے موجودہ اجلاس میں پیش کر کے قانونی حیثیت دلانے کے لئے فوری اور ضروری اقدامات کئے جائیں اور اس حوالے سے مسلم ممالک موثر لابنگ کریں تاکہ اسے قانونی حیثیت حاصل ہو سکے۔

اداریہ روزنامہ جنگ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں