مسلم امہ پوری دنیا کیلیے خیرکاباعث ہے

مسلم امہ پوری دنیا کیلیے خیرکاباعث ہے

خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ (2012-09-07ء) میں امت مسلمہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے مسلم امہ کو تمام دنیا والوں کیلیے خیر وبرکت کا باعث قرار دیا۔

 

انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز قرآنی آیت: ’’ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ‘‘ [آل عمران: 110]، کی تلاوت سے کرتے ہوئے مزیدکہا: اللہ سبحانہ وتعالی کا فضل تھا کہ اس عظیم ذات نے خیرالقرون میں ایک ایسی امت کی بنیاد ڈالی جو قیامت تک تمام اقوام اور امم سے افضل و برتر رہے گی۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں، اسی طرح ان کی امت بھی دنیا والوں کیلیے خیر ورحمت ہے۔ مسلم قوم دنیا کیلیے صلح اور امن ودوستی کا پیغام لیکر آئی ہے۔

جامع مسجدمکی زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے اس امت کو ہر جہت سے کامل اور جامع بنایا؛ دوسری قومیں انحراف کا شکار ہوگئیں، شرک و بدعات میں مبتلا ہوگئے لیکن مسلمانوں کو اللہ نے عقیدہ توحید سے نوازا۔ ان کے عقائد وہی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔ اخلاقیات اور تہذیب و تمدن میں بھی کوئی انہیں چلینج نہیں کرسکتا۔ سب سے اعلی اخلاقیات، تہذیب و تمدن اور احکام و مسائل سے اللہ تعالی نے مسلم امہ کو نوازا ہے۔

خطیب اہل سنت نے مزیدکہا: اللہ رب العزت نے مسلم قوم کو ’امت وسط‘ قرار دیاہے؛ میانہ روی و اعتدال مسلمانوں کی خصوصیت ہے۔ اسی وجہ سے اسلام دیگر معاشروں اور اقوام پر اثرگذار ہواہے۔ آج کے مغربی و مشرقی معاشروں میں اسلام کے احکام و اصول کو پذیرائی حاصل ہے؛ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی نیز سیاسی زندگیوں میں اسلام کے روشن و تابندہ احکام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بہت سارے حکام خلفائے راشدین کے اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ لہذا اسلام پوری انسانیت کیلیے خیرو برکت کا باعث ہے۔

شروع میں تلاوت کی گئی قرآنی آیت کی تفسیر کے ضمن میں حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں مسلم امہ کو ’’خیراْمۃ‘‘ یعنی بہترین امت قرار دیاہے جس کی تین وجوہات ساتھ لائی گئی ہیں؛ پہلی وجہ یہ ہے کہ امت مسلمہ لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتی ہے اور نیکی واچھائی کی فضا معاشرے میں قائم کرتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ قوم ہر قسم کے فساد و برائی کے انسداد کیلیے محنت کرتی ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ مسلم قوم کا اللہ پر پکا اور راسخ ایمان ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے مبارک ادوار میں قرآن پاک پر لفظ بہ لفظ عمل ہوتا اسی لیے ان کی جماعت دنیا میں بے مثال بن گئی جس کے سامنے وقت کے سپرپاورز تسلیم ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جب تک مسلمان قرآن و سنت کی راہ پر گامزن ہوں تو عزت و حرمت پائیں گے ورنہ زبون حالی و کسمپرسی سے دوچار ہوں گے۔ اجنبی طاقتیں ان پر اپنا اثر ڈال کر انہیں غلام بنائیں گی جیسا کہ مشاہدہ ہوتا رہتاہے۔

بیت المقدس رجوع الی اللہ اور نیک اعمال سے آزاد ہوگا
خطیب اہل سنت زاہدان نے مسجدالاقصی اور بیت المقدس (یروشلم) پر صہیونی قبضے کو مثال کے طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا: مسلمانوں کی قرآن وسنت سے دوری کی وجہ سے عشروں سے القدس صہیونی درندوں کے قبضے میں جاچکاہے۔ قرآن پاک کی روشنی میں یوں معلوم ہوتاہے کہ جب بھی مسلمان اور اہل کتاب اللہ سے غافل ہوئے اور گناہ و معصیت کے مرتکب ہوئے تو بیت المقدس ان کے قبضے سے نکل گیا، ان کی تقدیر کا فیصلے بیرونی و اجنبی لوگ کرتے اور انہیں غلامی سے دوچار ہونا پڑتا۔ جب مسلمان اللہ کی طرف لوٹ گئے تو زورایمان پر القدس پر فتح پاگئے نہ کہ اسلحے کے زور پر۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ اور صلاح الدین ایوبی نے قوت ایمانی کے سہارے القدس پر دشمن کا قبضہ ختم کرایا۔

انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: القدس ایٹم بم یا کسی اور بڑے اسلحے کے زور پر آزاد نہیں ہوگا؛ اس کی آزادی اس وقت ممکن و میسر ہوگی جب مسلمان اللہ کی طرف رجوع کریں اور اجتماعی توبہ کرکے اچھے اعمال کی پابندی کریں۔ الحمدللہ آج کل مسلم قومیں بیدار ہورہی ہیں اور اسلامی بیداری نے اسلامی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیاہے۔ جابر و کٹھ پتلی حکام کیخلاف عوامی تحریکیں نور کی طرح پھیلتی جارہی ہیں۔ اسی بیداری کی صورت میں اسرائیل پسپائی پر مجبور ہوگا اور القدس مسلمانوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔

ویٹو ظلم وجبر کو جاری رکھنے کیلیے استعمال ہوتاہے
ممتاز عالم دین نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ’’ویٹو‘‘ کو ایک ظالمانہ قانون قرار دیتے ہوئے کہا: ویٹو کا حق ظالموں کو ظلم و جبر رکھنے کیلیے فری ہینڈ دینے کیلیے ہے۔ مطالعے سے معلوم ہوتاہے انصاف کے خلاف پر مبنی یہ حق صرف سرکش حکام کو مزید سرکشی و ظلم کرنے کیلیے استعمال ہوا ہے؛ مغرب اور امریکا اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرکے اس کی قبضہ گیری و قتل و غارتگری کو طول دیتے ہیں، جبکہ روس و چین جیسے ممالک ویٹو کا استعمال کرکے بچوں، خواتین اور معصوم لوگوں کے قتل عام کا بازار گرم رکھتے ہیں۔

موجودہ ماڈرن دور میں ویٹو کا وجود حسرت وحیرانی نیز افسوس کا باعث ہے؛ ویٹو ایک آمرانہ قانون ہے جو جمہوریت کے سراسر خلاف ہے۔ یہ ہرگز معقول بات نہیں کہ جس کے پاس ایٹمی طاقت ہو اور اس کی معیشت مضبوط ہو تو وہ دوسروں پر اپنی پالیسیاں نافذ کرکے کمزوروں کو مزید دبائے، یہ انصاف کیخلاف ہے۔ حضرت شیخ الاسلام نے مزید کہا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں