رزقِ حلال سے ہدایت اور نیکی کی توفیق ملتی ہے

رزقِ حلال سے ہدایت اور نیکی کی توفیق ملتی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعے کی ابتدا قرآنی آیت: ’’وَ اَن لِیسَ لِلاِنسانِ اِلا مٰا سعیٰ وَ اَن سَعیَہ سَوفَ یْریٰ‘‘ [النجم: 39-40] کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: قرآن پاک اللہ تعالی کی عظیم الشان کتاب ہے جو انسان کی دنیوی و اخروی سعادت کیلیے آیا ہے۔ قرآن وسنت دونوں ہمیں محنت و تلاش کی دعوت دیتے ہیں۔

جامع مسجدمکی زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمیں دو قسم کی محنت و مجاہدے کا حکم دیاہے؛ دنیا میں حلال روزی کمانے اور اسے آباد کرنے کی دعوت اور دوسری قسم آخرت کی زندگی آباد کرنے کی محنت ہے۔ ایک مقام پر اللہ پاک نے صرف آخرت والی محنت واضح کی ہے: ’’وَ مَن اَراد الآخرۃ وَ سَعیٰ لَھٰا سَعیَھا‘‘، (جو آخرت کاخواہاں ہے اور اس کیلیے محنت کرتاہے۔) ایسے فرد کی محنت اللہ کے دربار میں قابل تعریف و ستایش ہے۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ تعالی نے رزقِ حلال اور اْخروی سعادت دونوں کے حصول کیلیے جدوجہد کا حکم دیاہے۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں سستی دکھانے سے بندہ مشکل میں پڑجاتاہے۔ گھرمیں بیٹھے سب کچھ ہاتھ نہیں آئے گا؛ محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جو حلال روزی کیلیے محنت نہ کرے دوسروں کا محتاج بنے گا، ایسا فرد گداگری اور سوال پر مجبور ہوگا جس کی اسلام نے مخالفت کی ہے۔ جبکہ آخرت کی ابدی زندگی کیلیے توشہ نہ رکھنے والا شخص رسوا وذلیل ہوکر جہنم کا لقمہ بنے گا۔

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: دنیا میں خوشحال رہنے اور حلال روزی کیلیے محنت نہ کرنے والوں کیلیے زندگی اجیرن ہوگی، ایسے افراد اسی دنیا میں خواری و ذلت اور احتیاج کی جہنم کے اسیر ہوں گے۔ اسلام ہرگز گداگری اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا، حتی کہ اپنی ذات کیلیے دوسروں سے زکات مانگنا بھی مناسب فعل نہیں ہے۔

نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محنتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: جب جزیرۃ العرب میں اسلام کا پرنور سورج طلوع ہوا تو لوگ فقر وفاقے کا شکار تھے۔ اسلامی تمدن و تہذیب نے صحابہ کرام کو محنت کی راہ دکھائی۔ یہاں تک کہ بعض صحابہ یہودیوں کیلیے اجرت پر مزدوری کرتے لیکن سوال کرنے اور دوسروں سے بھیک مانگنے کیلیے تیار نہیں تھے۔ حلال روزی کمانے میں سخت ترین مشکلات جھیل کر وہ اپنا گذربسر کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہؓ کو یہی درس دیا؛ کئی واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔

مولانا اسماعیلزہی نے مزیدکہا: ارشاد نبویﷺ ہے کہ بھیک مانگنے والے کے چہرے پر روزِ قیامت ایک زخم ہوگا۔ جو گداگری کرتا ہے اگر اسے کچھ ملے تو ذلت ہے اگر نہ ملے تو ذلت کیساتھ رسوائی وشرمندگی بھی ہے۔ کوئی فرد تہجد پڑھنے اور تلاوت کرنے والا شخص ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر بھیک مانگے تو قیامت کے دن اس کا چہرہ گوشت اور جلد سے خالی ہوگا، یہ بدترین شکل ہوگی۔ ارشادنبویﷺ ہے جو بھیک مانگ کر زندگی گزارے اللہ تعالی ہرگز اسے غنی نہیں بنائے گا بلکہ اس کی حاجتیں سوال سے بھی پوری نہیں ہوں گی۔ بھیک منگنا ایک قبیح اور برا کام ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے حلال روزی کے مثبت اثرات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: بہترین رزق وہ ہے جسے بندہ اپنی محنت اور عرقِ جبین سے حاصل کرے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالی کم عمل کے ساتھ ہی مغفرت فرمائے گا۔ جو صرف فرائض، واجبات اور سنن موکدہ ادا کرے اور حلال روزی کھالے اللہ اسے جہنم کی آگ سے بچائے گا۔

انہوں نے مزیدکہا: ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ خود بھی حلال روزی سے استفادہ کریں، دوسروں کو بھی حلال مال سے دیدیں خاص کر اپنے بچوں، ہمسایوں اور دیگر نادار لوگوں پر حلال پیسہ خرچ کریں۔ اللہ نے حکم دیاہے کہ جب جمعہ کی نماز کا وقت ہو تو کاروبار چھوڑدو اور مساجد میں جمع ہوجاؤ، نماز کے بعد اللہ کی زمین پر پھیل جاؤ اور اس کے فضل مانگ لو۔

ممتاز عالم دین نے کہا: سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتصادی پالیسی یہ تھی کوئی کسی کا محتاج اور دست نگر نہ ہو؛ کوئی عوام کا محتاج ہو نہ حکومت کا۔ حتی کہ باپ اور بیٹا ایک دوسرے کے محتاج نہ ہوں بلکہ سب محنت مزدوری کرکے روزی کمائیں۔ ایسی ہی روزی قابل قدر ہے جس کی بدولت بندے کو ہدایت اور نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو حلال اور پاکیزہ روزی کھانے کا حکم دیکر اسی حکمت کی جانب اشارہ فرمایا ہے: ’’یٰا اَیْھاالرْسْل کْلوا مِنَ الطیباتِ وَاعمَلوْا صٰالِحا‘‘۔

صدراسلام میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کی دن رات محنتوں کے بعض واقعات کی نشاندہی و تشریح کے بعد شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: محنت مزدوری کرنا کوئی عیب نہیں ہے۔ حلال اور پاکیزہ روزی حاصل کرنا کوئی عیب کی بات یا کام نہیں ہے۔ خریدوفروش کیلیے بازار جانا اور محنت سے کمانا ہرگز بری بات نہیں ہے؛ لیکن بھیک مانگنا اور سوال کرنا ایسے شخص کیلیے عیب ہے جو کمانے پر قادر ہے لیکن محنت نہیں کرتا۔

ویٹو کے جابرانہ حق کا خاتمہ ہونا چاہیے
اپنے بیان کے دوسرے حصے میں خطیب اہل سنت زاہدان نے تہران میں منعقد ہونے والی غیروابستہ ممالک کی تحریک کی سولہویں کانفرنس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اقوام متحدہ اور ’سکیورٹی کونسل‘ کے سٹرکچر میں اصلاح و تبدیلی لانی چاہیے؛ ’ویٹو‘ جابرانہ اور انصاف کے خلاف ہے جو چند ممالک کی اجارہ داری میں ہے، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

ممتاز سنی عالم دین نے مزیدکہا: اگرچہ ’غیروابستہ ممالک تحریک‘ کے اکثر ممبر ممالک اب وابستہ ہوچکے ہیں لیکن اتنے ممالک کے سربراہوں اور نمائندوں کا تہران میں اجتماع ملک کیلیے اچھی خبر ہے۔ اکثر عالمی طاقتیں ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا کر ملک کو منزوی اور تنہا بنانے کی کوشش میں ہیں، ایسے میں سو سے زائد ممالک کے نمائندوں کا اجتماع ملک وقوم کیلیے کامیابی ہے۔

NAM کی سربراہی تین سالوں کیلیے ایران کے حوالے ہونے کو ایک اور کامیابی قرار دیتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: رہبرانقلاب آیت اللہ خامنہ ای اور اسلام پسند مصری صدر ’محمد مرسی‘ کے بیانات بہت متاثر کن تھے۔ اقوام متحدہ و سکیورٹی ونسل کی ساخت پر ان کی تنقید قابل تعریف ہے۔ دونوں رہنماؤں نے مظلوم اقوام سے اپنی حمایت کا اعلان کیا جو سراہنے کے لائق ہے۔ (مسٹر خامنہ ای نے فلسطینی قوم سے اپنی حمایت کا اعلان کیا تھا جبکہ مسٹر مُرسی نے فلسطینی اور شامی قوموں کو سپورٹ کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس کی دعوت دی تھی۔)

انہوں نے مزیدکہا: اقوام متحدہ دنیا کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں اور مظلوم و بے کس قوموں کی حمایت کیلیے اقوام متحدہ و سکیورٹی کونسل کی کوششیں بہت ناچیز ہیں۔ بعض قومیں پچاس برس سے زائد کا عرصہ ظلم و جبر کے تحت گزار رہی ہیں، ان کا قتل عام ہوتا ہے، لیکن اقوام متحدہ ان کی حمایت نہیں کرسکی نہ ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشت وخون کی روک تھام میں کامیاب ہوئی ہے۔ ’ویٹو‘ جو چند مخصوص ممالک کے قبضہ میں ہے ایک ظالمانہ اور انصاف کے خلاف حق ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کیلیے اس کا غلط استعمال کرتی رہتی ہیں؛ امریکا، روس اور چین جیسے ممالک اپنے مفادات کے خاطر معصوم بچوں، خواتین اور بے گناہ لوگوں کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ’ویٹو‘ ہی کی وجہ سے سکیورٹی کونسل عوام کے قتل عام اور عالمی بحرانوں کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔

جامع مسجد مکی زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے ’عالمی اتحاد برائے مسلم علماء‘ کے رکن نے مزیدکہا: اب دنیا کے حالات بدل چکے ہیں، قومیں بیدار ہوچکی ہیں؛ لہذا ویٹو کا جابرانہ حق ختم ہونا چاہیے جو جمہوریت کے خلاف بھی ہے اور عالمی طاقتوں کا آلہ کار بناہواہے۔

مولانا اسماعیلزہی نے تاکید کرتے ہوئے کہا: ایک ذمہ دار شہری کے لحاظ سے حکام کو میری خیرخواہانہ نصیحت یہ ہے کہ پیش آمدہ موقع سے بخوبی فائدہ اٹھاکر ملک کے داخلی و خارجی مسائل حل کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ جو ملک ایک سوبیس کے قریب ممالک کی میزبانی کرسکتاہے اسے اپنے داخلی مسائل و مشکلات نیز عالمی بحرانوں کے خاتمے کیلیے کوئی حل نکالنا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں