سیستان وبلوچستان میں بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک

سیستان وبلوچستان میں بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک

ایران میں بسنے والی سنی برادری کو 1979ء کے انقلاب کے شروع ہی سے امتیازی سلوک اور نا برابری کا سامنا کرنا ہے ۔ چنانچہ ہمیشہ مجلس شورا (پارلیمنٹ) میں اہل سنت کے بعض نمائندے اور متعدد سنی خطباء نے اس مسئلے پر حکومت پر سخت تنقید کی ہے۔ سنیوں کو کلیدی عہدوں سے دور رکھنے کی غیرمکتوب پالیسی ان سالوں میں ہمیشہ نافذ رہی ہے۔ اگرچہ اصلاح پسندوں کے دور اقتدار میں بعض کوششیں بروئے کار لائی گئیں تاکہ کم از کم اہل سنت برادری کا ووٹ حاصل کرنے کیلیے انہیں مقامی اور چھوٹے درجے کے عہدے دیے جائیں لیکن یہ عمل مخصوص حدود سے آگے نہ جاسکا۔ مذکورہ امتیازی سلوک کا خاتمہ محض ایک انتخابی نعرہ بن گیا جسے صدارتی امیدوار استعمال کیا کرتے تھے۔

اہل سنت کیلیے ممنوعہ علاقہ:
اگرچہ سرکاری اداروں میں اہم عہدے بہت ہی محدود پیمانے پر شاید کسی سنی شہری کو مل جائیں لیکن بعض ڈپارٹمنٹس مکمل طور پر اہل سنت کیلیے ’شجرہ ممنوعہ‘ قرار دیے گئے ہیں؛ ان اداروں میں سنیوں کو کوئی معمولی روزگار بھی نہیں ملتا یا انتہائی محدود اور اختیار سے عاری پوسٹ مل جاتاہے۔ یہ ادارے درج ذیل ہیں:
-دفتر رہبری،
-صدر ہاؤس،
-تمام وزارت خانے،
-بطورخاص وزارت انٹیلیجنس،
-سکیورٹی فورسز اور پولیس،
-سرکاری ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشنز،
-گورنر ہاؤس۔
البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں صوبہ سیستان وبلوچستان میں ’سپاہ پاسداران‘ نے اعلان کیا ہے کہ درجنوں سنی شہریوں کو سرکاری طورپر ملازمت دی جائے گی۔ یہ افراد عام فوجی ہوں گے لیکن معلوم نہیں مستقبل میں بلاامتیاز حسب صلاحیت انہیں ترقی حاصل ہوگی یا نہیں۔ صوبائی سطح پر سیستان بلوچستان میں جو چھوٹے پیمانے پر سنیوں کو ملازمت دینے کا سست سلسلہ شروع ہوچکا تھا وہ سابق گورنر ڈاکٹر دہمردہ کے دور میں مزید سست روی کا شکار ہوگیا، اْس وقت انہیں بجٹ اور ملازمتوں کی غیرمنصفانہ تقسیم پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جو اس وقت کسی عہدے پر فائز ہوچکے تھے ریٹائرڈ ہونے کے قریب ہیں لیکن ان کی جگہ پر کرنے کیلیے کسی سنی کو امید نہیں، چنانچہ اہل سنت کو مزید منزوی کرنے اور دیوار سے لگانے کا سلسلہ شدت اختیار کرے گا۔ چند دن قبل صوبائی گورنر مسٹر آزاد یہاں سے چلے گئے، اپنے دور کے آغاز میں انہوں نے وعدہ کیا تھا بلاتفریق مسلک صوبے کی خدمت کرے گا اور ملازمتوں کی تقسیم بھی ایسی ہی ہوگی، لیکن عمل میں صرف دو تین ضلعی گورنرز کے علاوہ اہل سنت کو کوئی اہم عہدہ نہیں دیاگیا۔ یوں معلوم ہوتا خواہش کے باوجود وہ مسلکی امتیاز ختم کرنے میں ناکام ہوئے اور مقتدرحلقوں کی تسلیم ہوچکے تھے۔

اب صوبائی گورنر کے پانچ معاونوں میں صرف ایک نائب سنی شہری ہے! مسٹر مبارکی عمررسیدہ ہیں اور عنقریب ریٹائرڈ ہوں گے، پھر ان کی سیٹ پرکوئی غیر سنی براجماں ہو گا۔ چودہ اضلاع کے گورنرز سے صرف تین گورنرز سنی مسلک کے پیروکار ہیں حالانکہ یہاں اکثریت اہل سنت کی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں حالت یہ ہے کہ ان کے پانچ نائبوں میں ایک سنی بھی نہیں ہے، حتی کہ زاہدان شہر کی مقامی اور زونل نیابت کیلیے متعدد شخصیات نے ایک سنی کا نام پیش کیا لیکن ادارہ تعلیم کے سربراہ نے نہیں مانا۔ اب صوبائی سنی مدیروں کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم ہے۔ صوبائی سکیورٹی کونسل میں ایک سنی شہری بھی نہیں ہے حالانکہ کئی بار سکیورٹی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ اہل سنت کا تعاون نہ ہوتا وہ امن قائم کرنے میں ناکام ہوتے۔ بڑے پیمانے پر سنی شہری پولیس، سپاہ پاسداران انقلاب اور انٹیلیجنس ادارے سے تعاون کرتے چلے آرہے ہیں، لیکن یہ سب غیرسرکاری یا ’بسیج‘ ملیشیا کی حد تک ہورہاہے؛ کوئی صوبائی یا ضلعی عہدہ کسی سنی مسلک کو نہیں دیاجاتا ہے۔

عدالتی محکموں میں حالت بھی زیادہ مختلف نہیں۔ اس اہم اور موثر ادارے کی کارکردگی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے عدالت جو خود انصاف کا مظہر ہے امتیازی سلوک سے پاک نہیں ہے۔ سنی شخصیات اور علمائے کرام سے مشیر یا قاضی کے طور پر استفادہ نہیں کیا جاتاہے تاکہ معاشرتی مسائل پر قابو پایاجاسکے۔

ریاست کا منظر:
ملکی اور صوبائی سطح پر اہل سنت کی اقتدار میں مشارکت کے حوالے سے ریاست اور رجیم کا خیال کیاہے؟ اس بارے میں میڈیا میں کوئی مواد دستیاب نہیں ہے۔ لیکن جو بات آئین کے مطالعے اور مرشداعلی کے خیالات پر نظر ڈالنے سے سامنے آتی ہے اس سے معلوم ہوتاہے اہل سنت کیلیے کوئی آئینی پابندی نہیں ہے، جو کچھ دیکھنے میں آتاہے سب غیرمحررقانون اور ذاتی رجحانات ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے انتہاپسند شیعہ حلقے کس قدر اثرورسوخ رکھتے ہیں اور رجیم ان کے سامنے بے بس ہوچکاہے یا ہمارے حکمران بہت سست ارادے کے حامل ہیں۔

رہبری کے دفتر سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے جو آیت اللہ خامنہ ای کو ان کے دورہ کردستان میں ساتھ دیاتھا مجھے ایک واقعہ سنایا، ان کا کہنا تھا کہ جب رہبر اعلی کردستان کے شورائے اداری کے اجلاس میں شریک ہوئے تو انہیں بہت غصہ آیا، انہوں نے کہا: آپ کیسے ایک سنی صوبے کو سنی افراد کی مشارکت کے بغیر چلاتے ہیں؟ اگر یہ واقعہ صحیح ہو تو معلوم ہوتاہے مرشداعلی کا خیال اس بارے میں مختلف ہے لیکن کوئی سپریم لیڈر کی بات کو جامہ عمل نہیں پہناتا۔ مناسب ہوتا مسلکی امتیازی سلوک کا خاتمہ رہبری کے دفتر سے ہوتا اور سنی اکثریت صوبوں میں ان کی نمائندگی خود سنی کرتے۔

سپاہ پاسداران انقلاب واحد ادارہ ہے جو ملکی و عالمی حالات پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ملک کے امن اور اب معیشت میں اہم کردار ادا کررہاہے۔ سپاہ پاسداران نے صوبے کے حساس حالات اور عرب ممالک میں اہل سنت کی مذہبی قوتوں کے اقتدار حاصل کرنے کے مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایرانی سنیوں کو ملازمت دینے کا فیصلہ کیاہے۔ یہ قابل تامل بات ہے۔ اگر یہ افراد پروموشن حاصل کریں تو مستقبل میں اس کا ملکی سلامتی پر گہرا مثبت اثر پڑے گا۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ سپاہ پاسداران کے رویے پر اسے سخت تنقید کا بھی سامنا ہے؛ سپاہ قبائل اور قبائلی سرداروں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتاہے حالانکہ بلوچ معاشرہ میں اب سرداروں کا اثرورسوخ کم ہوتا جارہاہے اور ان کی جگہ تعلیم یافتہ طبقہ قوت حاصل کررہاہے، مستقبل میں معاشرے کی قیادت ان کے ہاتھ ہوگی۔
قبائل کو مسلح کرنا اور مقامی لشکر بنانا اگرچہ امن کیلیے ہے لیکن سرکاری ہتھیاروں کا استعمال قبائلی تنازعات میں ممکن ہے، یہاں مسلح تنازعوں کی تاریخ پرانی و مشہور ہے۔

’وہابیت‘ کا الزام:
انتہاپسند حلقے اہل سنت ایران کو اپنے ملک کی خدمت سے محروم رکھنے کیلیے ہمیشہ ان پر ’وہابی‘ ہونے کا الزام عائد کرتے چلے آرہے ہیں، یہ سلسلہ انقلاب کے آغاز ہی سے شروع ہوا تھا۔ حکام اور شیعہ علماء اس فرقے کی قوت پکڑنے اور پھیلنے پر ’وارننگ‘ دیتے رہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں افراط اور غلو کیاجاتاہے۔ یہ الزام محض سنی مسلمانوں کو ملازمت نہ دینے اور کلیدی پوسٹوں سے انہیں دور رکھنے کیلیے ایجاد ہوا ہے۔ مقتدر لیکن متعصب حلقے اب تک اسی بہانے پر اہل سنت کو محروم رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

مبہم مستقبل اور منظر:

برسر اقتدار حکومت کی عمر سے صرف چندماہ باقی ہے، اس دوران میں امتیازی سلوک کے خاتمے کے سلسلے میں کسی معجزے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ آنے والی حکومت میں حالات کیا ہوں گے؟ یہ بھی نامعلوم ہے۔ اسلامی انقلاب کے اہم مقاصد میں ایک معاشرتی انصاف کی فراہمی اور امتیازی سلوک کا خاتمہ تھا جو اب تک حاصل نہیں ہوچکاہے۔ اعلی حکام کی اس بارے میں کوئی واضح پالیسی بھی نہیں ہے کہ اس سے امیدیں وابستہ کی جائیں۔

دوسری جانب آس پاس کے ملکوں میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں؛ اسلامی بیداری پھیلنے کے بعد سنی اسلام پسند اقتدار کی سیٹ پر فائز ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر ایران خود کو ان کا اسوہ اور قائد تصور کرتاہے تو ملک کے اندرونی حالات اس کیلیے بالکل سازگار نہیں ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای واحد شخص ہیں جو اپنے لامحدود اختیارات کا استعمال کرکے امتازی سلوک کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اس سے خود حکام کو بین الاقوامی سطح پر فائدہ پہنچے گا۔

بشکریہ ’زاہدان فردا‘


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں