شام دارالحکومت دمشق میں دھماکہ

شام دارالحکومت دمشق میں دھماکہ

دمشق(ايجنسياں) شام کے دار الحکومت دمشق میں ایک فوجی احاطے میں زور دار دھماکہ ہوا ہے۔
یہ عمارت اس ہوٹل کے قریب واقع ہے جس میں اقوامِ متحدہ کے مبصر مشن ٹھہرا ہوا ہے۔
شام کے سرکاری ٹیلی وژن کا کہنا ہے کہ دھماکہ ایک ایندھن کے ٹرک کے قریب ہوا جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق بم سڑک کنارے نصب تھا۔
عینی شاہدین نے شہر کے وسط سے دھوئیں کے بادل اٹھتے دیکھے ہیں۔
شام میں جاری تشدد حالیہ عرصے مںی دارالحکومت دمشق تک پھیل گیا ہے۔

بشارالاسد کا صرف 30 فی صد علاقے پر کنٹرول رہ گیا:منحرف وزیراعظم

شام کے سابق وزیر اعظم ریاض حجاب کا کہنا ہے کہ صدر بشارالاسد کی حکومت کا ملک کے صرف تیس فی صد علاقے پر کنٹرول باقی رہ گیا ہے اور اس کا دھڑن تختہ ہونے کو ہے۔۔
ریاض حجاب اسی ماہ کے آغاز میں منحرف ہو کر پڑوسی ملک اردن چلے گئے تھے۔ انھوں نے اردنی دارالحکومت عمان میں نیوز کانفرنس کے دوران شام کے انقلابیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ”آپ کا انقلاب آزادی اور وقار کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کا ایک نمونہ بن چکا ہے۔میں اپنے تجربے اور سابقہ عہدے کی بنا پر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسدحکومت مالی اور روحانی طور پر گرنے کے قریب ہے”۔
انھوں نے کہا کہ ”بشار الاسد کی حکومت کا شام کے تیس فی صد سے زیادہ علاقے پر کنٹرول نہیں رہا ہے۔اس لیے چمکتے ہوئے انقلاب کو مکمل ہونے دیں اور ملک کے اتحاد کو برقرار رکھیں”۔
ریاض حجاب نے بتایا کہ انھوں نے پانچ اگست کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ اور ملک چھورنے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ انھیں بدعنوان اور ظالم حکومت میں تبدیلی کی کوئی امید نہیں رہی تھی۔ انھیں اردن پہنچنے میں تین دن لگے تھے۔
انھوں نے واضح کیا کہ اب یا مستقبل میں شام کی آزادی کے بعد انھیں کوئی عہدہ اپنے پاس رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ریاض حجاب نے شام کے باغی جنگجوؤں پر زوردیا کہ ”وہ شامی حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں کیونکہ شامی عوام کو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں”۔انھوں نے شام کی مسلح افواج پر بھی زور دیا کہ وہ شامی عوام کے اوپر اپنے بندوقیں نہ تانیں۔
ریاض حجاب شام کی حزب اختلاف کے لیڈروں کی اکثریت کی طرح اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ صدر بشار الاسد کے قریبی حلقوں میں شمار نہیں ہوتے تھے لیکن وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کے انحراف اور ملک سے چلے جانے کو بشار الاسد کی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
شامی حکام نے ان کے ملک سے چلے جانے کے بعد یہ اطلاع دی تھی کہ صدر بشار الاسد نے انھیں برطرف کر دیا تھا لیکن انھوں نے منگل کو نیوز کانفرنس میں واضح کیا کہ وہ مستعفی ہو کر حزب اختلاف کے ساتھ مل گئے تھے۔ انھوں نے بشار الاسد کی حکومت کو اللہ کی دشمن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ میرا فرض تھا میں اس بدعنوان حکومت سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنے دامن کو صاف کر لوں”۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں