صابر بندہ ہی شاکر ہوسکتاہے

صابر بندہ ہی شاکر ہوسکتاہے

خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ(13جولائی2012ء) کا آغاز قرآنی آیت: «فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ» [بقره: 152]، (سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد کیا کرو نگا اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا) کی تلاوت سے کرتے ہوئے ’ذکر‘ و ’شکر‘ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا صبر کرنے سے ذکر و شکر کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: تلاوت کی گئی آیت میں دو اہم نکتے بیان ہوئے ہیں؛ ایک اللہ تعالی کو یاد کرنا اور ذکر میں مشغول ہونا۔ یہ انتہائی عظیم عمل ہے اور انسانی زندگی پر حیران کن اثر چھوڑتاہے۔ دوسرا نکتہ اللہ کی نعمتوں پر شکرگزاری ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ذکر و شکر کو آیت میں اکٹھے لایا جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ جب بھی بندہ ذکر کرتاہے تو وہ دراصل اللہ کا شکر ادا کرتاہے۔ بندوں کو شاکر و ذاکر ہونا چاہیے۔ آگے آتاہے: «یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ»، (اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) اس کا مطلب ہے ذکر و شکر درحقیقت ’صبر‘ کے نتائج ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جو بندہ صابر نہ ہو وہ ذاکر و شاکر بھی نہیں ہوسکتا۔

ذکراللہ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: جو اللہ کو یاد کرتاہے اس نے بہت ہی عظیم ذات کو یاد کی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں تو اللہ ہم کمزوروں کو یاد کرتاہے۔ جب تم نے کہا: ’’سبحان اللہ‘‘! تو سمجھیے کہ اللہ نے آپ کا تذکرہ فرمایا اور آپ نے اس عظیم ذات کی عبادت کی۔ آج کل اگر کسی کو پتہ چلے کہ کسی دنیادار اور اہم شخصیت نے اپنی کسی مجلس میں اس کا تذکرہ کیاہے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتاہے۔ لیکن جب ہم پوری کائنات کے خالق کو یاد کرتے ہیں تو وہ ہمیں فرشتوں کی محفل میں یاد فرماتاہے۔ جب کوئی درود بھیجتاہے تو ایک فرشتہ آپﷺ کے پاس جاکر کہتاہے فلان بن فلان نے آپ کو سلام کیاہے۔ اس سے بڑھ کر کیا فخر ہوسکتاہے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ’شکر‘ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا: ہمیں اللہ تعالی کی تمام نعمتوں پر ان کی شکرگزاری کرنی چاہیے، چاہے نعمتیں مادی ہو یا معنوی، ظاہری ہوں یا باطنی۔ مؤمن انسانوں کو دل و زبان سے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو ممنون سمجھنا چاہیے۔ اللہ کی عبادت کرنا اور شریعت کی پیروی شکرگزاری ہے۔ اسی طرح نماز پڑھنا، زکات کی ادائیگی، روزہ رکھنا، نادار اور غریبوں کی مدد کرنا شکر کے عملی نمونے ہیں۔

ممتاز سنی عالم دین نے مزیدکہا: گناہ کی راہ میں اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرنا ناشکری کی ایک صورت ہے۔ اللہ کی جسمی و مالی اور دی گئی صلاحیتوں کا غلط استعمال سب سے بڑی ناشکری ہے۔ پیسے کو رشوت، شراب، منشیات اور بدعنوانی جیسے گناہوں میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے حاضرین کو ترغیب دیتے ہوئے مزیدکہا: ہر حال میں اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ مصیبت کے وقت ناشکری و بے صبری کے الفاظ زبان پر نہیں لانا چاہیے۔ اسی طرح خوشی کے وقت رقص اور دیگر خلاف شریعت کاموں میں نہیں لگنا چاہیے۔ کسی مسلمان کیلیے یہ عیب و عار کی بات ہے کہ خوشی کے وقت اپنے احساسات اور جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور شریعت کی نافرمانی کرے۔

مولانا اسماعیلزہی نے مزیدکہا: سب سے بہترین شادی پارٹی وہ ہے جس کا خرچہ کمترین ہو اور اس میں اسراف نہ ہو۔ شادی کے پروگراموں میں میوزک کے بجائے اسلامی نظمیں اور تقاریر کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو مغربی ممالک کی رسومات کی پیروی نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں اسلام و شریعت کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے آخر میں تمام حاضرین کو ترغیب دی کہ آنے والی جمعرات کی شام کو رمضان المبارک کے چاند دیکھنے کا اہتمام کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں