مغربی ممالک کا شامی سفارت کاروں کو نکالنے کا فیصلہ

مغربی ممالک کا شامی سفارت کاروں کو نکالنے کا فیصلہ

دمشق(بى بى سى) حولہ میں ایک سو آٹھ افراد کے قتل پر احتجاجاً برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے شام کے سفارت کارروں کو اپنے اپنے ملکوں سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پیر کو شام کے سفیر کو دفترخارجہ میں طلب کر کے انھیں ایک ہفتے کے اندر ملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کے اتحادی ملک بھی شام کی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے شامی سفارت کاروں کو اپنے ملکوں سے نکال رہے ہیں۔
انھوں نے حولہ کے قتل عام پر کہا کہ دنیا اس واقعہ پر شدید حیرانی کا شکار ہے۔
قبل ازیں فرانس اور جرمنی نے بھی شامی سفارت کاروں کو اپنے ملک سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔
دریں اثناء اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام کے شہر حولہ میں گزشتہ جمعہ کو ہلاک کیے گئے ایک سو آٹھ افراد میں زیادہ تر افراد کو قتل کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے ترجمان نے کہا ہے کہ عینی شاہدین نے تفتیشی عملے کو بتایا ہے کہ حکومت کی حامی مسلح ملیشیا کے لوگوں نے ان افراد کو قتل کیا ہے۔
اس واقعہ میں بچ جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ مسلح افراد لوگوں کے گھروں میں گھس کر اندھا دھن فائرنگ کرتے رہے اور انھوں نے بچوں کے گلے کاٹ دیئے۔
اقوام متحدہ کا بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے نمائندے کوفی عنان دمشق میں صدر بشرالاسد سے ملاقات۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سفارت کار کے ترحمان روپرٹ کوویل نے اخبار نویسوں کا بتایا کہ ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ حولہ شہر کے قریب تالدو کے گاؤں میں بیس کے قریب افراد ایک ٹینک کا گولہ لگنے سے ہلاک ہوئے۔
انھوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر افراد کو اس گاؤں میں دو مختلف واقعات میں قتل کیا گیا۔
قبل ازیں کچھ زندہ بچ جانے والے افراد نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایک سو آٹھ افراد کو قتل میں ملوث افراد ملیشیاء ’الشبيحۃ‘ سے تعلق رکھتے تھے اور وہ قریبی گاؤں الاوئتی سے آئے تھے۔
اقوام متحدہ کے نمائندے کوفی عنان نے اس قتل عام کو اندوہناک لمحہ اور بہت دورس اثرات کا حامل واقعہ قرار دیا ہے۔
صدر بشارالاسد سے ملاقات سے قبل منگل کو اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل نے کہا کہ شام کی حکومت کو امن قائم کرنے میں اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنا پڑیں گے۔
بی بی سی کے نامہ نگار جم میور نے لبنان سے بتایا ہے کہ یہ کوفی عنان کے امن منصوبے کے لیے فیصلہ کن مرحلہ ثابت ہو گا اور انھیں بشار الاسد سے اپنی ملاقات میں کچھ ایسا کرنا ہوگا جس سے ملک کو فرقہ وارانہ فساد سے بچایا جا سکے۔
کوفی عنان کے امن منصوبے کے تحت بارہ اپریل کو ملک میں جنگ بندی عمل میں لائی جانی تھی اور اقوام متحدہ کے مبصرین کی تعیناتی سے قبل سرکاری فوجوں کو ٹینکوں اور بھاری ہتھیاروں سمیت شہری علاقوں سے نکلنا تھا۔
کوفی عنان صدر بشار الاسد سے اپنی ملاقات میں انھیں اپنے وعدے پورے کرنے کے بارے میں کہیں گے لیکن ہمارے نامہ نگار کے مطابق اس ملاقات کے نتیجے کا زیادہ تر دارومدآر شام کے قریبی اتحادی روس کے رویے پر منحصر ہے۔
روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کے خلاف دو قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا۔ روس نے پیر کو حولہ کے واقعے پر اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ اس قتل عام کے دونوں فریق ذمہ دار ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں