کائنات میں غورکرنے سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے

کائنات میں غورکرنے سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے

ممتاز عالم دین، خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعے کا آغاز سورت آل عمران کی آیات 190-192 کی تلاوت سے کرتے ہوئے کائنات میں سوچ و فکر کی اہمیت پر قرآن پاک کی روشنی میں گفتگو کی۔ انہوں نے کہا: تفکر اور مخلوقات میں غور کرنا اللہ کی معرفت حاصل کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔

جامع مسجد مکی زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا: دن رات، آسمان و زمین سب اللہ کی طاقت کی نشانیاں ہیں؛ سورج اس قدر تابان ہے کہ پوری زمین کو اس کی وسعت کے باوجود روشنائی پہنچاتاہے۔ جب یہ کائنات اس قدر عظیم ہیں تو سوچیے ان کا خالق کتنی عظیم ذات ہے۔ ارشادخداوندی ہے: ’و فی الارض آیات للموقنین و فی انفسکم افلا تبصرون‘، زمین میں یقین کرنے والوں کیلیے نشانیاں موجود ہیں، اسی طرح اگر کوئی دیکھنا چاہے تو انسانی جسم کے اندر بیشمار چیزیں ہیں جو اللہ کی عظمت و بزرگی کی علامتیں ہیں۔ انسانی اعضا و جوارح اللہ کے وجود کے دلائل ہیں۔ انسان کا ہر عضو اس کی خوبصورتی دوچند کرتا ہے؛ اگر جسم کی ساخت اس طرح نہ ہوتی جیسے اللہ رب العزت نے بنائی ہے تو بندہ بہت بدشکل ہوتا۔ اللہ تعالی ہمیں یاد دلاتاہے کہ اس ذات کی بڑائی کے بارے میں سوچیں جس نے یہ خوش نما اور حسین جسم خلق فرمایاہے۔

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے ایسی چیزوں کو خلق فرمایا ہے جن کی تخلیق انسانی طاقت سے باہر ہے۔ آج کل اگر بنی آدم ٹیکنالوجی کی مدد سے بعض چیزیں ایجاد کرنے میں کامیاب ہوا ہے تو یہ سب اللہ کی مخلوقات کی نقل کرکے بنائے گئے ہیں۔ مثلا ہوائی جہاز پرندوں کی حرکات وسکنات سامنے رکھ کر ایجاد کردیے گئے، آبدوز اور کشتیاں مچھلیوں کی نقلیں ہیں جبکہ کمپیوٹر جیسی ایجادات انسانی دماغ کی کاپیاں ہیں۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: اللہ تعالی کی نعمتوں اور انسان کی خلقت میں غور و خوض سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ رب العالمین نے ہمیشہ اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ مختلف آیات الہیہ اور کائناتی نشانیوں میں غور و تدبر کریں۔ جو لوگ ان نعمتوں اور نشانیوں کے باوجود اللہ کی عظیم ذات کو نہیں مانتے وہ درحقیقت جاہل و نادان لوگ ہیں جو عقل کے نقصان کا شکار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ دوسروں کو اللہ کی عبادت میں شریک گردانتے ہیں عقل اور منطق سے عاری ہیں۔ چونکہ اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی بے شمار چیزیں دنیا میں ہرسو موجود ہیں۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: کائنات میں تفکر و تدبر سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ایک بے نیاز ذات ہے اور سب مخلوقات اس کے محتاج ہیں۔ جو صاحبان اقتدار اس وہم میں تھے کہ انہیں اللہ کی کوئی ضروت نہیں سخت اور فاش غلطی میں ہیں؛ اگر اس ذات کریم نے ایک لمحہ کیلیے اپنی نعمتیں ان سے چھین لی تو انہیں ان کے اوقات کا اندازہ ہوجائے گا۔ طاقت اور پیسہ ان سے واپس لیاجائے تو وہ کہاں سے یہ چیزیں حاصل کرسکیں گے؟ اللہ سبحانہ وتعالی نے نمرود و فرعون کو جو خدائی کا دعوی کرتے کیسے خوار و ذلیل کیا؟ نمرود کو ایک مچھر سے ختم کیا اور فرعون دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوا۔ جو لوگ اللہ کے حوالے سے استغنا و بے نیازی دکھاتے ہیں انہیں اللہ تعالی عبرت کا نشان بناتاہے۔

تفرقہ سے طاقت ور قومیں کمزور پڑجاتی ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: آج کل کے حالات بہت حساس ہیں۔ اسلام دشمن عناصر اسلام پسندی اور اسلام پسند تحریکوں سے خوف کا احساس کرتے ہیں اور کسی طرح اسلام کا چراغ گُل کرنے کے درپے ہیں، لیکن الحمدللہ اب تک انہیں ناکامی و رسوائی ہی ملی ہے۔ ماضی میں سابق سوویت یونین اور امریکا میدان جنگ گرم رکھتے اور وہ دنیا کے سب سے بڑے دو سپرپاورز شمار ہوتے۔ ان دو طاقتوں نے اپنی مفادات کی جنگوں میں مسلمانوں اور جہاد کا غلط فائدہ اٹھایا۔ جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو مغرب کی پوری توجہ اسلام کی ریشہ کنی پر لگی۔ کھربوں ڈالرز اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے پر خرچ ہوا لیکن اسلام دشمن ملکوں کو اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب مختلف ملکوں میں مسلمانوں نے اسلام پسندی کے عزم کا اظہار کیا جس سے اسلام کے دشمنوں کے عزائم خاک میں مل گئے۔ مشرق و مغرب کی اسلام دشمنی نے مسلمانوں کو اپنی دینی شناخت کے بارے میں مزید چوکس اور حساس بنادیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام مسلم عوام کے رگ و ریشہ میں رچ بس چکا ہے۔ اسلام آمریت اور فردواحد کی حکمرانی کے خلاف ہے اور آزادی کے جھنڈے تلے قوموں کی سعادت و آزادی کیلیے قائم ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: اسلام سختی سے آمریت کی نفی کرکے آزادی، انسانی حقوق حتی کہ جانوروں کے حقوق کی حمایت کا علمبردار ہے۔ اسلام افراط و تفریط سے پاک دین ہے۔ اب دشمن مسلمانوں کو آپس میں دست و گریبان کرکے اسلام کو کمزور کرنا چاہتاہے۔ شیعہ سنی اور نسلی اختلافات کو ہوا دیکر تفرقہ پیدا کرنا ان کا شیوہ ہے۔ دشمنوں کی سب سے بڑی امید اسی مسئلہ سے ہے کہ مسلمان آپس میں لڑپڑیں۔ شیعوں کو کہاجاتاہے تمہارے لیے سب سے بڑا خطرہ اہل سنت کی جانب سے ہے اور اہل سنت کو بتایاجاتاہے تمہارے سب سے بڑے دشمن اہل تشیع ہیں۔ یہاں تک کہ مشرق وسطی میں بعض آزادی پسند تحریکوں کو مسلکی رنگ دیا جاتاہے؛ اگر ایسا ہو تو یہ ان انقلابی تحریکوں کیلیے بڑی شکست ہوگی۔

ایرانی حکام اور شیعہ علماء و ’مراجع‘ کو وارننگ دیتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: صوبائی اور ملکی حکام سمیت شیعہ علما کا کردار ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے دشمن کے کاز کو فائدہ پہنچے؛ انتہاپسند چاہے شیعہ ہوں یا سنی دشمن کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ایران میں بھی ایسا ہے اگرچہ شیعہ انتہاپسندوں کی طاقت زیادہ ہے۔ بعض اوقات سننے میں آتاہے کہ بعض تنگ نظر اور موقع پرست عناصر اعلی حکام تک ایسی رپورٹیں بھیج دیتے ہیں کہ ہمیں حیرت ہوتی ہے؛ انہیں سنی اکثریت صوبوں میں ’وہابیت‘ کا غیرموجود خطرہ نظر آتاہے۔ ملک کو سب سے بڑا نقصان یہی لوگ پہنچاتے ہیں جو اعلی حکام کو غلط اور جھوٹ پر مبنی رپورٹیں بھیجتے ہیں۔

مولانا عبدالحمید اسماعیلزہی نے تاکید کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی سے ہماری دعا ہے کہ ایسے خودپسند اور دروغ گو عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دے۔ ان لوگوں کا مقصد افواہیں پھیلانے سے تفرقہ پیدا کرنا اور فضا کو مزید کشیدہ بنانا ہے تاکہ حکومت اور سکیورٹی اتھارٹیز سنی عوام اور علماء کو مزید ہراسان کریں۔ شیعہ عوام اور حکام کو آگاہ ہونا چاہیے۔ انتہاپسند شیعہ ویب سائیٹس اور اخبارات کی راہ بند کرنی چاہیے جو فرقہ واریت کے درپے ہیں۔ یہ ذرائع ابلاغ اہل سنت کی توہین کرکے کردارکشی مہم چلاتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اب تک حکام نے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایاہے، انتہاپسندوں کو میدان دینا خطے کے امن و سکون کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔

ایرانی بلوچستان کے ضلع سرباز میں بعض علماء کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: کچھ عرصہ پہلے لگ بھگ ایک سو علمائے کرام نے حکومتی اداروں کو خط لکھ کر گرفتار علماء کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ہماری درخواست ہے مولوی جنگی زہی کے قتل کیس میں زیادہ تحقیق و دقت کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ کسی کا خون رائیگاں نہ جائے، بلاوجہ کوئی جیل میں قید نہ رہے۔ حکام کا رویہ ایسا نہ ہو کہ عوام اشتعال میں آئیں جیسا کہ راسک شہر میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ان کا احتجاجی مظاہرہ کچل دیاگیا۔

انہوں نے مزیدکہا: حکومت کی ذمہ داری ہے تمام مقتولین کے قاتلوں کو گرفتار کرے چاہے مقتول حکومت کا حامی ہو یا مخالف۔ ہر صورت میں تدبیر، انصاف سے کام لیکر امتیازی سلوک سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات حکومت بیگناہ مقتولین کے قاتلوں کو کئی سال گزرنے کے باوجود گرفتار نہیں کرتی تو لوگ مجبور ہوکر خود اسلحہ ہاتھ میں لیتے ہیں اور مظنون افراد کو قتل کرتے ہیں، حالانکہ یہ حکومت کا کام ہے۔

خطیب اہل سنت نے زور دیتے ہوئے کہا: جو لوگ بیت المال اور قومی خزانہ سے تنخواہ لیتے ہیں تاکہ انصاف فراہم کرنے، برابری، بھائی چارہ اور امن پھیلانے کے سلسلے میں محنت کریں، انہیں لسانی و مسلکی اختلافات کی روک تھام کیلیے کوشش کرنی چاہیے۔ سب سے زیادہ طاقتور قومیں تفرقہ و اختلاف سے کمزور پڑجاتی ہیں۔ اتحاد نعروں اور سیمینارز منعقد کرنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ عمل سے اس کا ثبوت دینا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں