خلفائے راشدین کا دورسچائی، امن وانصاف اور برابری کا دورتھا

خلفائے راشدین کا دورسچائی، امن وانصاف اور برابری کا دورتھا

ممتاز سنی عالم دین اور خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین خطبے جمعے کا آغاز ’’لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم‘‘ کی تلاوت سے کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ار بعثت کو اللہ سبحانہ و تعالی کی اپنے بندوں پر بہت عظیم نعمت قرار دی۔

جامع مسجد مکی زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے صحابہ کرام کی برادری کو ایک محفوظ، طاقت ور اور زندہ کمیونٹی قرار دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اہم نتائج میں سے ایک تھی۔ مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے اپنے افضل الانبیاء محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری جانب مبعوث فرمایا اور اسلام ایک معتدل دین ہے۔ قرآن پاک مسلم امہ کی توصیف یوں کرتا ہے: ’’و کذٰلک جعلناکم امۃ وسطا‘‘، (اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایاہے)۔ بعض احادیث مبارکہ میں بھی مسلم قوم کو معتدل اور یکسو قرار دیاگیاہے۔ اسلام اعتدال کا درس دیتاہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سبق بھی یہی ہے۔ اسلام افراط اور تفریط دنوں سے دور ہے۔

حضرت شیخ الاسلام نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مزیدکہا: اللہ تعالی نے اسلام کو اس لیے بھیجا تاکہ انسانی معاشرے کیلیے ایک رہبر اور قائد برادری کا نمونہ پیش کرے جو ایمان، اخلاق اور اعمال صالحہ سمیت ہر شعبے میں تابان و اسوہ ہو۔ ایک ایسی کمیونٹی جو جھوٹ، فریب، خیانت، تکبر اور نفاق جیسی بری صفات و اعمال سے دور ہو اور مکارم اخلاقی سے متصف ہو۔ یہ قوی اور سرگرم برادری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر تیار ہوئی۔ خاتم الانبیا نے ایک ایسی قوم تربیت کی جو ولایت و اخلاق کی چوٹیوں تک حقیقی معنی میں پہنچ گئی۔

خطیب اہل سنت نے تاکید کرتے ہوئے کہا: جن صحابہؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کی وہ ہر میدان میں کمال تک پہنچ گئے جنہوں نے اپنے دور میں تمام لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا۔ ہر طبقے کے لوگ ان کے دور میں سکون سے رہ رہے تھے اور انہیں مکمل آزادی حاصل تھی۔ صحابہؓ آپس میں بھائی بھائی تھے اور مشکل ترین حالات میں دوسروں کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے تھے۔

انہوں نے مزیدکہا: صحابہ کرام سختی سے جھوٹ اور خیانت کے مخالف تھے، حتی کہ سرسخت دشمن سے بھی غدر و خیانت کی سوچ بھی ان میں نہیں تھی۔ ان کے معاشرے میں عربی و عجمی سب برابر تھے اور سب کو برابر کے حقوق حاصل تھے۔ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بعض افراد کے اصرار کے باوجود اپنے نیک اور تابع قرآن وسنت فرزندوں عبدالرحمٰن بن ابی بکر اور عبداللہ بن عمرؓ کو اپنے بعد جانشین بنانے پر تیار نہیں تھے بلکہ انہوں نے ایک شوریٰ بنا کر مسلمانوں کو اختیار دیا جسے چاہیں خلیفہ بنادیں۔

ممتاز عالم دین نے مزیدکہا: اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی شخص اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا نہیں ہوتا۔ اسی لیے انبیاء کے بعد مسلمان خودمختار تھے جسے چاہیں اپنا امیر اور خلیفہ بنادیں۔ یہ آزادی اور جمہوریت سے زیادہ قریب ہے۔ خلفائے راشدین کا سنہرا دور تاریخ میں بے مثال ہے؛ مسلم و غیرمسلم کو ان کے جائز حقوق ملتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایک مسلمان کو ایک ذمی کافر کے خون کے بدلے قصاص کیا۔ یہودی اور عیسائی سکون و آزادی سے اپنی عبادتگاہوں میں مصروف عبادت ہوتے اور ان کے علماء کو احترام دیاجاتا۔ جنگوں میں بھی عبادت خانوں، علماء، بچوں، خواتین اور عمررسیدہ افراد پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔

اپنے ہم وطنوں اور مسلم ممالک کے حکام کو خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: دنیا و آخرت کی سعادت کی واحد راہ قرآن و سنت کی جانب لوٹ جانا ہے۔ مغرب کے پروپگینڈے کے برعکس اسلام فطرت کا دین ہے؛ جو اس پر عمل کرے محفوظ رہے گا اور ہر شعبے میں ترقی پائے گا۔ اسلام کی سفارش ہے کہ ہر انسان کو آزاد جینے کا حق حاصل ہے۔

پاکستانی بلوچستان میں جاری بحران کا علاج اغوا و قتل نہیں

مولانا عبدالحمید اسماعیلزہی نے بیان کے ایک حصے میں پاکستان کے زیرِانتظام صوبہ بلوچستان میں جاری بدامنی کے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی و سماجی کارکنوں کے اغوا اور قتل کو بلوچستان کے بحران کو مزید گھمبیر بنانے کی اہم وجہ قرار دی۔

ایرانی بلوچستان کے صدرمقام زاہدان کی جامع مسجد مکی میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: ہم پاکستان کے داخلی مسائل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے لیکن ہمسایہ ملک کے ابتر حالات دیکھ کر ہمیں دکھ ہوتاہے۔ پاکستان مسلمانوں کا ایک عظیم ملک ہے جس میں متعدد قومیتیں اور مذاہب و مسالک کے پیروکار آباد ہیں۔ ایسے ممالک کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ قومی اتحاد اور امن نیز معاشرتی یکجہتی کے حصول کیلیے ملک کے تمام مذاہب و مسالک اور قومیتوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ حکام کسی بھی قوم یا مسلک کو دوسروں پر ترجیح نہ دیں جیسا کہ صدراسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کا شیوہ تھا۔

ممتاز سنی عالم دین نے مزیدکہا: پاکستانی حکام وہاں رہنے والے بلوچوں کے حقوق کا خیال رکھیں جو ایک اہم اور اسٹریٹجک خطے میں آباد ہیں۔ پاکستانی بلوچستان شدید ثقافتی اور معاشی بحرانوں اور پسماندگیوں کا شکار ہے؛ بلوچ امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں معدنیات اور پیدائشی وسائل کے بڑے ذخائر موجود ہونے کے باوجود اس صوبے کا شمار سب سے پسماندہ علاقوں میں ہوتاہے۔ شرح خواندگی اور عوام کی معیشت کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ وفاقی حکام نے بہت کم اس صوبے پر توجہ دی ہے چنانچہ اب بدامنی اور مسائل کی آوازیں سننے میں آرہی ہیں۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: بلوچستان میں لوگ دن دیہاڑے اغوا ہوتے ہیں اور پھر ان میں سے بعض کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں اور بعض کو برسوں تک لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ خبروں میں آیاہے کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ ایک سکیورٹی زون میں بدل چکاہے جہاں لوگوں کیلیے زندگی مشکل ہوچکی ہے۔

دارالعلوم زاہدان کے سرپرست و مہتمم نے مزیدکہا: ہمارا خیال ہے کہ ان بدامنیوں کا علاج اغوا اور قتل نہیں ہے۔ قتل اور ٹارگٹ کلنگ کی پیداوار کسی بھی فرد یا گروہ کی جانب سے ہو مزید دشمنی اور نفرت ہے۔ ہم برادرکشی کے مخالف ہیں اور بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والی تمام برادریوں کے حقوق کا خیال رکھاجائے خاص کر بلوچوں کے حقوق اور مطالبات کا جتنا ممکن ہو مثبت جواب دینا چاہیے۔ قتل اور ظلم و تعدی سے اس آگ کو بجھانا ناممکن ہے۔ ہم پاکستان کی سالمیت اور جغرافی سرحدات کا احترام کرتے ہیں، ہمسایہ ملک میں تشویش اور بدامنی ہماری تشویش کاباعث ہے اور ہم وہاں کے عوام کے مسائل اور پریشانیوں میں خود کو شریک سمجھتے ہیں۔

ممتاز سنی عالم دین نے مزیدکہا: دنیا کے تمام حکام بشمول پاکستانی حکام کو ہماری نصیحت ہے کہ قومی اور مسلکی و مذہبی اقلیتوں کے حقوق کاخیال رکھیں اور سب سے برابری کا سلوک کریں، اپنے اقتدار اور وسائل پر فخر مت کریں۔ دوسروں کی دنیا کے خاطر اپنی آخرت تباہ نہ کریں۔ ایسے مسائل کاحل بات چیت، مذاکرات اور عفو و بخشش ہے۔ اسلام کا حکم ہے سب کو ایک نظر سے دیکھیں، آپﷺ نے میدان عرفات میں اعلان فرمایا کہ کسی عرب کو کسی عجمی (غیرعرب) پر فوقیت وبرتری حاصل نہیں۔ ہماری آرزو و خواہش ہے کہ تمام قومیں اپنی حکومتوں کے زیرسایہ کسی بھی پریشانی کے بغیر اور مکمل سکون و امن اور آزادی سے جیئیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں