خالد شیخ سمیت 5 ملزموں پر فرد جرم عائد

خالد شیخ سمیت 5 ملزموں پر فرد جرم عائد

نائن الیون حملوں کے مرکزی ملزم خالد شیخ محمد سمیت پانچ ملزموں پر باضابطہ فرد جرم عائد کردی گئی ہے تاہم ملزمان نے صحت جرم کی تصدیق یا انکار نہیں کیا اور بالکل خاموش رہے جبکہ ایک ملزم نے جج سے مخاطب ہونے کی کوشش کی تو جج نے کہا کہ انہیں بعد میں موقع دیا جائے گا مگر انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے پھر مجھے یہاں آنا ہی نصیب نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ مجھے مار دیں اور کہیں کہ میں نے خود کشی کر لی ہے۔
گزشتہ روز کیوبا کی گوانتا ناموبے جیل میں ہونیوالی مقدمے کی سماعت نو گھنٹے سے زائد تک جاری رہی۔ ملزموں پر قتل، شہریوں پر حملے، ہائی جیکنگ اور دہشتگردی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
خالد شیخ محمد اور دوسرے چار ملزمان کو گذشتہ تین سال سے زائد عرصے کے بعد پہلی دفعہ گوانتا ناموبے جیل میں فوجی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ دوران سماعت ملزموں نے اپنے کانوں سے ہیڈ فون اتار کر ججز کے کسی بھی سوال کو سننے اور جواب دینے سے انکار کر دیا۔ ملزمان کے دو وکلاء نے کچھ دلائل فوجی عدالت میں پیش کیے تاہم خالد شیخ محمد سمیت کسی ملزم نے بھی الزامات کی تردید کو اہم نہ سمجھا۔ عدالت نے پانچوں ملزموں پر فرد جرم عائد کر دی۔
امریکہ پر گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کی منصوبہ بندی کے مرکزی ملزم خالد شیخ محمد سمیت پانچ ملزمان کو گوانتا ناموبے کے امریکی قید خانے میں فوجی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا لیکن خالد شیخ محمد نے عدالت کے سوالات کے جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ خالد شیخ محمد سمیت دیگر ملزمان کو امریکہ کے خلاف سازش کرنے، شہریوں پر حملے، ہائی جیکنگ، دہشتگردی اور جنگ کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لوگوں کو قتل اور زخمی کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔
خالد شیخ محمد کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل احتجاجاً جج کے سوالات سننے سے انکار کر رہے ہیں کیونکہ ان پر دوران حراست تشدد کیا گیا اور انہیں یقین ہے کہ مقدمے کی کارروائی منصفانہ نہیں ہے۔ مقدمے کی کارروائی تاخیر سے شروع ہوئی کیونکہ ایک ملزم ولید بن عطش کو کرسی سے باندھ کر عدالت میں لایا گیا لیکن وکیل صفائی کی جانب سے اس یقین دہانی کے بعد کہ وہ اچھا برتاؤ کریں گے انہیں کھول دیا گیا۔ بعد میں مقدمے کی کارروائی ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہوئی کیونکہ ملزمان نے عدالت کی کارروائی کا عربی ترجمہ سننے کے لیے ہیڈ فونز استعمال کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد ایک عربی مترجم کا بندوبست کیا گیا تاکہ ملزمان عدالتی کارروائی کو سمجھ سکیں۔
مقدمے کے ایک اور ملزم رمزی بن الشیبہ نے جج کو مخاطب کرنا چاہا تو جج نے کہا کہ انہیں بعد میں بات کرنے کا موقع دیا جائے گا جس پر ملزم نے کہا کہ ممکن ہے کہ آپ کو دوبارہ ہمیں دیکھنے کا موقع ہی نہ ملے اور ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے مار ڈالیں اور کہہ دیں کہ میں نے خود کشی کر لی ہے۔
ان ملزمان پر اس سے پہلے بھی گوانتا ناموبے میں مقدمہ چلانے کی کوشش کی گئی تھی جسے صدر اوباما کی جانب سے گوانتا ناموبے کے قید خانے کو بند کرنے اور وہاں قید افراد کے مقدمات کو امریکہ کی سویلین عدالتوں میں منتقل کرنے کے اعلان کے بعد 2009 میں روک دیا گیا تھا لیکن بعد میں امریکہ کے اندر ان کے اس منصوبے کی سخت مخالفت کے بعد انہیں یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ تین سال کے تعطل کے بعد اب ان ملزمان پر فوجی ٹریبونل نے دوبارہ مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا ہے۔
امریکہ نے گوانتا ناموبے کے قیدیوں کے لیے نئے قواعد بھی متعارف کرائے ہیں جن کے تحت تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے شواہد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم وکلائے صفائی کا کہنا ہے کہ گوانتا ناموبے میں مقدمات چلانے کا نظام اب بھی جائز نہیں ہے کیونکہ انہیں اپنے مؤکلوں تک محدود رسائی دی جاتی ہے۔ ملزمان کے ایک وکیل جیمز کونیل کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں