ایرانی اہلسنت حکومت اورشیعہ کیلیے خطرہ نہیں ’موقع‘ ہے

ایرانی اہلسنت حکومت اورشیعہ کیلیے خطرہ نہیں ’موقع‘ ہے

ممتازعالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے ایرانی سنی برادری کو حکومت اور شیعہ کمیونٹی کیلیے ’موقع‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے: حکومت کو اہل سنت سے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے؛ جو لوگ ایسی رپورٹس شائع کرواتے ہیں کوتاہ نظر اور مغرض ہیں۔

جامع مسجد مکی میں سنی سٹیوڈنٹس کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: کچھ عناصر حکام کو رپورٹیں بھیجتے ہیں کہ سنی برادری موجودہ رجیم کیلیے ’بالقوہ‘ اور محتمل خطرہ ہے لہذا سنیوں کو ایک دوسرے سے تعلق قائم کرنے سے روک دیں! ہم ایسے سفیہ و نادان لوگوں سے اللہ کے دربار میں شکایت کرتے ہیں۔ ہم قانون سے ورا کچھ نہیں چاہتے۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: ایران کی سنی برادری حکومت کیلیے موقع ہے، بشرطیکہ ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے، رجیم نعروں پر اکتفا مت کرے اور اتحاد کیلیے عملی اقدامات اٹھائے، ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت فراہم کرے اور عہدوں کی تقسیم کے موقع پر یکساں نگاہ رکھے، سنیوں سے امتیازی سلوک بند کرے؛ ایسی صورت میں ایرانی اہل سنت اسلامی اتحاد کیلیے پوری دنیا میں بہترین کردار ادا کرسکتاہے۔

مولانا عبدالحمید نے سنی یونیورسٹی طلبا کی علمائے کرام و دانشوروں سے ملاقات کی خاطر بعض مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: بعض صوبائی حکام کا کہنا ہے طلباء سے ملاقات کیلیے باقاعدہ اجازت طلب کرنی چاہیے چونکہ وہ ہمارے اجتماع کو قانون کیخلاف سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہماری یہ ملاقات مدارس و یونیورسٹیز کے اتحاد کے ضمن میں ہے؛ جو مصروفیات کے بناپر سال میں ایک مرتبہ ہوا کرتی ہے اور اس کے آخر میں کوئی بیان یا مطالبات کی فہرست شائع نہیں ہوتی۔ مسجد میں جمع ہوکر روحانی ملاقات کرنا ہرگز کانفرنس یا میٹنگ نہیں ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: دنیا کے کسی بھی کونے میں ایسا قانون نہیں ہے کہ کوئی شہری اپنے ملک کے دوسرے صوبے کا سفر کرے تو اس سے داخلہ کی اجازت نامہ یا ویزا طلب کیاجائے۔ بعض حکام کی تنگ نظری کی وجہ سے بہت سارے طلبا و دانشور آج کی ملاقات میں شریک نہیں ہوسکے۔ حکام سے ہماری درخواست ہے کہ اہل سنت کو دیکھ لیں، اہل سنت ایک حقیقت ہے، ان کے وجود اور حقوق کا انکار ناممکن ہے جیسا کہ شیعوں کے وجود اور حقوق کا انکار ممکن نہیں۔ ایران مین آباد سنیوں کی تعداد کے بارے میں متعدد اور متضاد ارقام پیش ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم کم ازکم پوری آبادی کی بیس فیصد ہیں یعنی ایران کی آبادی کا پانچواں حصہ۔ کوئی ہمارے حقوق کا انکار نہیں کرسکتا۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان، ایرانی اہلسنت کا عظیم ترین دینی ادارہ، نے مزیدکہا: اہل سنت افراط و تفریط کی راہ پر نہیں، اعتدال، عقل و فکر ان کا راستہ ہے۔ ہم اپنے قانونی حقوق و آزادیوں پر زور دیتے رہیں گے اور پرامن طریقے سے اس کیس کی پیروی کریں گے۔ ہمارا خیال ہے اہل سنت ہر تعلیی ادارے اور عسکری مراکز میں پریشانی کے بغیر باجماعت نماز ادا کرنے کی آزادی حاصل کرے۔ ہماری باتوں میں اتحاد کیخلاف کوئی بات نہیں صرف اتحاد و یکجہتی کی بات کی جاتی ہے۔

حکام کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا: موافقین و مخالفین سب کی بات سننی چاہیے، وہ لوگ جو جیلوں میں ہیں یا دیگر مذاہب و قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی بات بھی سن لیں۔ ہماری یہ درخواست مشرق وسطی میں کامیاب انقلابیوں سے بھی ہے، تیونس، لیبی، مصر اور یمن کی انقلابی قوتیں بھی پوری قوم کو اعتماد میں لیں، فراخدلی کا مظاہرہ کریں اور تمام ادیان کے پیروکاروں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ ہمارے حکام بھی یاد رکھیں کہ ان کی بقا و پایداری کا راز نگاہ کی وسعت اور تمام شہریوں کے حقوق کی پاسداری میں ہے۔

ایران کی مختلف یونیورسٹیز کے سنی طلبا کو مخاطب کرتے ہوئے نامورسنی عالم دین نے کہا: معیشت اور مادی مقاصد کیلیے علم حاصل نہ کریں۔ بلکہ تمہارا مقصد تعلیم کے حصول سے معاشرے کی خدمت ہونی چاہیے، اس طرح معیشت کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ بعض طلبا شکایت کرتے ہیں ہمارا کوئی مستقبل نہیں، چونکہ ہمیں ملازمت نہیں دی جاتی تو ہمیں مزید پڑھنے کی ہمت نہیں ہوتی! میرا جواب یہ ہے کہ دانش کا حصول ملازمت کیلیے نہیں ہونا چاہیے، تمہارے مقاصد دیگر لوگوں کی اغراض سے زیادہ اعلی ہوں۔ حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے اور اللہ تعالی حالات میں تبدیلی لائے گا۔

انہوں نے مزیدکہا: بیٹے اور بیٹیاں اس محفل میں شریک ہیں؛ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ معاشرے میں ہماری عزت و آبرو ہیں۔ عفت و پاکی، شریعت پر عمل اور اخلاقی مسائل میں دوسروں کیلیے اسوہ و نمونہ بن جائیں۔ یہ شرم کی بات ہے کہ اگر کوئی سمجھتا ہے بے پردگی اور عریانیت سے ترقی حاصل ہوتی ہے۔ ترقی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حجاب اور حیا کو دور پھینکا جائے اور عریانیت کا مظاہرہ کیا جائے۔ آپ خدانخواستہ ایسی راہ پر نہ چلیں جو ہمارا رستہ نہیں اور انحراف شمار ہوتاہے۔ وہ دن دور نہیں کہ آپ بھی ان شاء اللہ اس معاشرے میں کلیدی کردار ادا کرنے اور خدمت کرنے کا موقع پائیں گے۔

شورائے مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان کے سرپرست اعلی نے مزید کہا: یہ دنیا بے وفا ہے، آمریت و خودپرستی کا انجام فنائیت ہے۔ معاصر تاریخ میں حسنی مبارک، قذافی و۔۔جیسے آمر باہمت خواتین و نوجوانوں کی محنتوں اور قربانیوں کی وجہ سے سقوط کا شکار ہوئے۔ مشرق وسطی میں نوجوان مرد وخواتین انقلابات کے سرخیل تھے اور ہیں۔

ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: ہم کسی شیعہ کو اپنی برادری میں داخل نہیں کرنا چاہتے، بلکہ ہم اپنی ہی مذہبی و قومی شناخت کی حفاظت کیلیے تگ ودو کررہے ہیں، ہمارا خیال ہے ہر برادری کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی دینی و قومی شناخت کی پاسبانی کرے۔ ہم اپنے لباس کی تبلیغ نہیں چاہتے بلکہ ہر برادری اپنے لباس کی پاسداری کرسکتی ہے۔ جو قومیں شناخت سے محروم ہوں وہ مردہ قومیں ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں