امریکی فوجی کے ہاتھوں بے گناہ افغانیوں کا قتل

امریکی فوجی کے ہاتھوں بے گناہ افغانیوں کا قتل

افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن پاک کے شہید کئے جانے کا زخم ابھی دلوں میں تازہ ہی تھا کہ ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں16/افغان شہریوں کے قتل عام نے لوگوں کو مزید مشتعل کردیا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ 11سال سے ملک پر قابض غیر ملکی افواج جانتے بوجھتے نہ صرف ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کررہی ہیں بلکہ دوسری طرف یہ افواج اس ملک کے شہریوں کی جانوں کو ارزاں سمجھتے ہوئے ان کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں۔
حالیہ واقعہ گزشتہ ہفتے افغانستان کے صوبہ قندھار کے قریب واقع ایک گاؤں میں پیش آیا جہاں ایک فوجی بیس پر تعینات امریکی فوجی نے نواحی گاؤں کے 2 گھروں میں گھس کر فائرنگ کرکے 3 خواتین اور 9 بچوں سمیت16/افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا۔ جاں بحق ہونے والے بچوں میں سے 2 کی عمریں 2 سے 3 سال کے درمیان تھیں۔ مذکورہ امریکی فوجی نے شہریوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں بھی جلادیں۔ جدید ہتھیاروں سے مسلح یہ امریکی فوجی آدھی رات کی تاریکی میں اپنے بیس سے نکلا اور ایک کلومیٹر مسافت پر واقع گاؤں الخوئی پہنچا۔ رات کے اس پہر میں گاؤں کے مکین گہری نیند سورہے تھے، امریکی فوجی نے کئی گھروں پر دستک دی مگر کسی نے دروازہ نہ کھولا لیکن شاید ایک بدقسمت خاندان اس رات اپنے گھر کا دروازہ بند کرنا بھول گیا تھا اور اس طرح یہ فوجی اس گھر میں داخل ہوا اور مکینوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ خون کے پیاسے اس امریکی فوجی کی پیاس شاید ابھی نہیں بجھی تھی اور اس نے قریب ہی واقع ایک دوسرے گھر میں داخل ہوکر اسی طرح کا وحشیانہ کھیل کھیلا اور گھر کے مکینوں جس میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی کو موت کے گھاٹ اتار ڈالا۔ خون کی ہولی کھیلنے کے بعد یہ فوجی اطمینان سے واپس اپنے بیس پہنچا اور وہاں موجود اپنے ساتھیوں کو بڑے فخریہ انداز میں اپنے کارنامے سے آگاہ کیا۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ اس قتل عام میں ایک سے زائد امریکی فوجی ملوث تھے مگر بعد میں صرف ایک ہی امریکی فوجی کو مجرم ٹھہرایا گیا۔
قتل کا ذمہ دار38 سالہ امریکی سارجنٹ رابرٹ بلیس افغانستان میں تعیناتی سے قبل عراق میں3 بار تعینات کیا جاچکا تھا۔ اس کا تعلق انفنٹری سے تھا اور وہ ایک ماہر نشانچی مانا جاتا تھا۔ عراق میں تعیناتی کے دوران اس کی اعلیٰ خدمات پر اسے3 دفعہ مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق عراق میں تعیناتی کے دوران رابرٹ بلیس سر میں انجری کا شکار ہوا تھا اورشاید اس چوٹ نے اس کے دماغ پر کوئی اثر چھوڑا ہو۔ افغان صدر کرزئی نے شہریوں کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سوچی سمجھی کارروائی قرار دیتے ہوئے امریکی حکام سے اس واقعے کی وضاحت طلب کی ہے جبکہ افغان عوام کے اس مطالبے کہ مذکورہ فوجی کا پبلک ٹرائل کیا جائے، افغان پارلیمینٹ کے ارکان نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ اب افغانیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور افغان شہریوں کے قتل میں ملوث امریکی فوجی پر افغانستان میں ہی مقدمہ چلایا جانا چاہئے تاہم امریکہ نے افغان پارلیمینٹ کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے امریکی فوجی کا مقدمہ امریکہ کی عدالت میں چلائے جانے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی پالیسی کے مطابق ان کے فوجیوں کو کسی بھی اقدام پر ان ممالک میں استثنیٰ حاصل ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے افغانیوں کے قتل کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اسے مذکورہ امریکی فوجی کا انفرادی فعل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خوفناک واقعے کے بعد امریکہ کو افغانستان میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے مگر امریکہ افغان عوام کی حفاظت کیلئے اٹھائے گئے اقدام سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور مستحکم و مضبوط افغانستان کیلئے ہر ممکن کام کرتا رہے گا۔
گزشتہ ماہ کابل میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن پاک کے نسخے شہید کئے جانے کے بعد افغانستان میں پُرتشدد واقعات اور امریکیوں کے خلاف نفرت انگیز جذبات میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ امریکی حکام نے قرآن پاک شہید کئے جانے کے واقعے پر معذرت کی تھی تاہم وہ افغانستان میں ہونے والے مظاہروں کو کچلنے میں ناکام رہے تھے جن میں 6/امریکیوں سمیت 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔امریکہ افغان شہریوں کے قتل میں ملوث امریکی فوجی کو ذہنی مریض اور واقعے کو اس کا انفرادی عمل قرار دے کر واقعے سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ قاتل فوجی ذہنی مریض تھا تو پھر ایسے ذہنی مریض کو اعزازات سے کیوں نوازا گیا اور افغانستان میں کیوں تعینات کیا گیا۔
امریکہ نے افغانستان میں پیش آنے والے حالیہ واقعے کی انکوائری کرانے کا بھی اعلان کیا ہے مگر اس واقعے کی انکوائری کا نتیجہ بھی سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے کی انکوائری سے مختلف نہ ہوگا جس میں ذمہ دار پاکستان کو ہی ٹھہرایا گیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ نام نہاد انکوائری افغان عوام کے اشتعال میں کوئی کمی لاسکے گی؟ امریکہ کا یہ کہنا کہ افغان شہریوں کے قتل میں ملوث فوجی پر امریکہ میں مقدمہ چلاکر اسے کڑی سزا دی جائے گی صرف زبانی بیانات تک ہی محدود ہیں کیونکہ اسی طرح کا بیان امریکہ نے3 پاکستانی شہریوں کے قتل میں ملوث امریکی ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں بھی جاری کیا تھا جس کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور مجرم امریکہ میں دندناتا پھر رہا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ افغان شہریوں کے قاتل رابرٹ بلیس کو بھی امریکی حکام افغانستان سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور وہ اب امریکہ میں ہے۔
امکان ہے کہ امریکی فوجی کے ہاتھوں مرنے والے افغان شہریوں کے اہل خانہ کو جانوں کے بدلے معاوضہ دے کر اس معاملے کو بھی دبا دیا جائے گا۔ امریکہ افغانستان میں یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات کے بعد شدید مشکلات اور دباؤ کا شکار ہے اور صورتحال روز بروز بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے جبکہ ان واقعات کے بعد طالبان کی پوزیشن بھی مزید مستحکم ہوگئی ہے اور انہوں نے امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات سے انکار کرکے اسے مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حالیہ واقعے نے کابل واشنگٹن کے پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید کشیدہ اورافغانیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ نیٹو و امریکی افواج کا افغانستان سے جلد از جلد انخلاء ہی وقت کی ضرورت ہے۔

اشتیاق بیگ
(بہ شکریہ اداریہ جنگ نیوز)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں