اسلام بھائی چارہ، عزت، برابری اور اخلاقیات کا دین ہے

اسلام بھائی چارہ، عزت، برابری اور اخلاقیات کا دین ہے

خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں قرآنی آیت: ’’وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ‘‘ [الانعام:153]کی تلاوت سے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے اسلام کے مقام اور مسلمانوں کیلیے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا: اسلام بھائی چارہ، اخوت، برابری و عزت اور مکارم اخلاقی کا دین ہے۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ’دین حنیف‘ سے متصف کرکے ان پربہت بڑا احسان فرمایاہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے سورت الانعام کی آیت 161 میں اسلام کو دین ابراہیمی اور حنیف قرار دیاہے اور اسی کی جانب مسلم امہ کو رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ دین افراط تفریط سے پاک ہے اور مکمل اعتدال پسندی پر مبنی ہے۔ اللہ تعالی نے اس دین حنیف کو ’صراط مستقیم‘ اور ’امۃ وسطا‘ نیز پسندیدہ دین جیسے الفاظ سے یاد کیاہے؛ ’’الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا‘‘ [مائدہ:3] اسلام ایک ایسا دین ہے جسے اللہ رب العزت نے پوری انسانیت کیلیے منتخب فرمایاہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقے، رنگ و نسل اور ثقافت سے ہو۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے ممتاز عالم دین نے مزید کہا: اسلام اخوت و بھائی چارے کا دین ہے جو برابری اور عزت و کرامت کا درس دیتاہے۔ اسلام کی رو سے برتر فرد وہی ہے جس کا تقوا زیادہ ہو جیسا کہ سورت الحجرات کی آیت13 میں آیاہے۔ جو زیادہ متقی ہو وہی برتر و افضل ہے لیکن حقیقی متقی و پرہیزگار شخص ہرگز برتری و افضلیت کا دعوی نہیں کرتا، جو ایسا دعوی کرے وہ متقی ہو ہی نہیں سکتا بلکہ ایسے افراد خودخواہ و مغرور ہوتے ہیں۔
جامع مسجد مکی زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تواضع کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید گویاہوئے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر متواضع تھے کی کہیں بھی اپنے لیے مخصوص مقام متعین نہیں فرماتے، گھر ہو یا مسجد یا دیگر عام مقامات پر آپ علیہ السلام دیگر لوگوں کیساتھ مل جل کر رہتے اور ہرگز خود کو برتر نہیں سمجھتے۔ یہاں تک کہ اگر باہر سے کوئی شخص آتا تو اسے معلوم نہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مجمع میں کون ہیں۔ غلام و مزدور اور عمررسیدہ افراد بلا روک ٹوک آسانی سے اپنی بات ان سے کہہ دیتے، بعض اوقات ایسا ہوتا کہ کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتا اور نماز کیلیے اقامت ہوتی اور سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں ہوتے لیکن سرورِکونین پوری متانت و قار سے اس فرد کی بات سنتے اور پھر نماز پڑھانے کیلیے آگے بڑھتے۔ آنحضرت علیہ السلام کی عادت مبارکہ تھی کہ لوگوں کی بات غور سے سنتے اور سب سے ایک جیسا برتاؤفرماتے۔ شریعت اور سنت کا حکم بھی یہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا برتاؤ لوگوں سے ایسا تھا کہ ہرشخص یہ سمجھتا کہ آپ سب سے زیادہ اس سے محبت کرتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے ہمیں ایک ایسا دین عطا فرمایا ہے جو معنویت اور روحانیت سے بھرا ہے، اعتبار اسی کا ہے، جس کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ دین موجود ہو اتنا ہی اللہ کے یہاں اس کی قدر اور عزت میں اضافہ ہوگا۔ اگرچہ آج کل لوگوں کے نزدیک برتری اس شخص کی ہے جو زیادہ سے زیادہ مالدار ہو اور عزت کی بنیاد مادیات پر ہے، جو افسوسناک بات ہے۔ آج کل جس ملک کی معیشت زیادہ مضبوط ہو اور صنعت و ٹیکنالوجی کے لحاظ سے طاقت ور ہو تو وہ احساس برتری و تکبر کا شکار ہوتاہے۔ حالانکہ مادی برتری زوال پذیر اور عارضی ہوتی ہے، اصل برتری جو ہمیشہ قائم رہتی ہے ایمان، تعلق مع اللہ اور نیک اخلاق و کردار کی بہتری پر منحصر ہے۔
مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: اللہ رب العزت نے جو طاقت دعا، تقوا، اخلاص اور دین داری میں رکھی ہے ایٹم بم میں بھی ایسی طاقت نہیں ہے۔ دعا و تضرع اور آہ سحری وہ چیز ہے جس نے اقوام عالم کی تقدیریں بدل دی ہے۔اسی دعا و اخلاص کی طاقت سے مسلمانوں نے قیصر و کسری کے تخت کو الٹ دیا، تاریکی کو ختم کرکے ایران و روم کو نور اسلام و ایمان سے منور کردیا۔
اپنے خطبے کے پہلے حصے کو ختم کرکے مولانا عبدالحمید نے کہا: ’ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا‘ مسلمانوں کی برتری و عزت کا معیار ہے۔ سچے مومن کامیابی کے راستے پر چلتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’ولاتھنوا و لاتحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘۔ پابندی سے خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے والے، اللہ سے تعلق رکھنے والے اور قرآن وسنت کی راہ پر چلنے والے مومنوں کو اللہ تعالی ہرقسم کی مشکلات و مصائب سے محفوظ رکھتاہے۔

نئی پارلیمنٹ قانونی عمل کرے، قانونی آزادیوں کے نفاذ پر نظارت کرے
نامور سنی عالم دین نے اپنے خطبے کے دوسرے حصے میں دومارچ کے پارلیمانی انتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عوام کی مشارکت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ملک کے مسائل ختم ہوچکے ہیں۔ نئی پارلیمنٹ کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک آئینی آزادیوں کے صحیح نفاذ پر مکمل نظر رکھنا ہے۔
انہوں نے گزشتہ جمعہ میں زاہدانی عوام کے الیکشن میں بڑے پیماے پر مشارکت پر ان کیلیے دعائے خیر کی اورا لیکشن سنٹر کے متعلقہ ذمہ داروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے عوام کے ووٹوں کی حفاظت کیلیے کوشش کی۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: نئی پارلیمنٹ کوشش کرے کہ قانون کے مطابق عمل کرے، اس کے ارکان اور جو وزراء اس پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے ہیں ان کی سرگرمیاں پوری قوم کیلیے ہونی چاہییں، انہیں کسی مخصوص پارٹی یا گروہ کیلیے کام کرنے کے بجائے سب کیلیے سوچنا چاہیے۔ سب کی بات سننی چاہیے اور ان کے مسائل کے حل کیلیے کوشش کرنی چاہیے۔ اسی صورت میں اللہ تعالی اس پارلیمنٹ سے راضی ہوگا اور عوام کی حمایت بھی انہیں حاصل ہوجائیگی۔ عوام نے بڑے ٹرن آؤٹ سے اپنی ذمہ داری پوری کرلی اب پارلیمنٹ اور عوامی نمائندوں کی باری ہے کہ صحیح طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرلیں۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: انتخابات میں عوام کی مشارکت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کی کوئی ناراضگی اور مشکل نہیں ہے؛ بلکہ ان کے حق رائے دہی کا استعمال ان کی سیاسی فراست اور شعور کی علامت ہے۔ اس لیے حکام اور پارلیمنٹ ایسا مت سوچیں کہ عوام کے مسائل کا خاتمہ ہوچکاہے۔
مولانا عبدالحمید نے ’اقتصادی پابندیوں کانفاذ‘، ’لاقانونیت‘ اور ’ذاتی رویوں کو قانونی روپ دینے‘ کو عوام کے اہم مسائل سے شمار کرتے ہوئے کہا: عالمی اداروں اور طاقتوں کی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے عوام طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں، دوسری جانب بعض مقتدر افراد قانون کے نفاذ کے بجائے اپنی ذاتی خواہشوں کے نفاذ کیلیے کوشاں نظر آتے ہیں اور اپنے آپ کو قانون سمجھنے لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجلس کوشش کرے ایسے افراد کا راستہ بند ہوجائے خاص کر ایران کے سرحدی و دوردراز علاقوں میں قانون کے نفاذ کیلیے محنت ہونی چاہیے۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب قانون درست انداز میں نافذ ہو اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے۔ پارلیمان اور قوانین کے نافذکرنے والے حکام صحیح طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرلیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں