ایرانی بلوچستان: ’خاش جلسے‘کی مذمت، مولاناعبدالحمید کی حمایت

ایرانی بلوچستان: ’خاش جلسے‘کی مذمت، مولاناعبدالحمید کی حمایت

زاہدان(سنی آن لائن) ایران کے جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان کے شہر خاش میں منعقد ہونے والے ایک گستاخانہ حکومتی جلسے کے ردعمل اور علمائے کرام کے مذمتی بیانات کی لہر جاری ہے۔
ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے متعدد ائمہ وخطبا نے خاش جلسے کی شدید مذمت کرتے ہوئے خطبہ جمعہ کے دوران شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید، جامع مسجدمکی اور دارالعلوم زاہدان سے اپنی یکجہتی کا اظہار کیاہے۔
’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق جنوری کے آخر میں گورنر خاش نے شہر کے علمائے کرام و معتبرین کو ’ارشاد ہال‘ میں ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی جس میں صوبائی انٹیلی جنس چیف کے ڈپٹی نے ممتاز سنی عالم دین مولانا عبدالحمید اور عظیم سنی مسجد و مدرسہ( دارالعلوم زاہدان) کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاتھا۔ حاضرین کے احتجاج اور واک آؤٹ پر مذکورہ سازشی جلسہ ناکام ہوگیا تھا۔
ایرانی بلوچستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے نامور علمائے کرام نے انٹیلی جنس حکام کی کردارکشی مہم کی پرزور مذمت کرتے ہوئے ایسی حرکتوں کو فرقہ واریت پھیلانے اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی سازش قرار دی ہے۔
واقعہ کے بعد خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مذکورہ جلسے کو ملکی مفادات کیخلاف قرار دیا اور نصیحت و انذار کا سہارا لیتے ہوئے کشیدگی کی فضا ختم کرنے کی کوشش کی۔
بلوچستان کے چوٹی کے علماء نے اپنے خطبوں میں کیا کہا؟ اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

خطیب گشت: مولاناعبدالحمیدسے بڑھ کر کوئی مشفق نہیں
بلوچستان کے شہر ’گْشت‘ کے خطیب مولانا محمد دہقان نے حضرت شیخ الاسلام کی شان میں گستاخی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ہم سب کو معلوم ہے اس قوم اور ملک کیلیے مولانا عبدالحمید سے بڑھ کر کوئی شخص خیرخواہ و شفیق نہیں ہے۔ اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے۔
مولانا دہقان نے مزیدکہا: ہم سب اعلان کرتے ہیں کہ مولانا عبدالحمید کا ساتھ دیتے رہیں گے، ہمارے خیال میں ایسی گستاخانہ حرکتیں (جیسا کہ خاش میں گزرا) ملک دشمن عناصر اور اسلامی اتحاد کے دشمنوں کی کارستانیاں ہیں۔ اللہ تعالی اس دین اور علمائے دین کی حفاظت فرمائے گا اور حسب وعدہ اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ عطا فرمائے گا۔

’ایسے جلسوں کے منعقدین ملک، انقلاب اور اسلام کے دشمن ہیں‘

مولانا حبیب الرحمٰن، ’’دہپابید‘‘ کے خطیب اور ’’مدرسہ اسلامیہ کہنوک‘‘ کے مہتمم نے اپنے خطبے میں فرقہ واریت پھیلانے والوں کو ملک اور اسلام کے دشمن قرار دیا۔
دارالعلوم زاہدان کی ہتک کی مذمت کرتے ہوئے انہوں کہا: یہ سب کچھ اس وقت پیش آیا جب ’ہفتہ وحدت‘ ہمارے سامنے ہے اور ہم انقلاب کی کامیابی کے ایام میں ہیں۔ انقلاب ایک نعمت خداوندی ہے جسے اللہ دیکر ہمارا امتحان لیتاہے اور لیکر بھی ہمیں آزمائش میں ڈال سکتاہے۔
مولانا حبیب الرحمٰن نے مزید کہا: ایرانی حکام کو چاہیے تیونس، لیبیا، مصر اور یمن جیسے ملکوں کے حکام کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ ان ملکوں کے آمر حکمرانوں نے بروقت عوام کی آواز نہیں سنی اور عوام کی بات پر توجہ نہیں دی، نتیجے میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے بالاخر آمروں کو بھگانے پر مجبور کیا۔ ظلم و ناانصافی کا انجام اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
خاش میٹنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اس مشتبہ جلسے میں ایک نامعلوم شخص کی باتوں کو سند بناکر حضرت شیخ الاسلام پر حملہ کیاگیا، حالانکہ آپ ہمیشہ اتحاد و یکجہتی کیلیے محنت کرتے ہیں، ملک و قوم کے خیرخواہ ہیں اور علماء میں ان سے بڑھ کر کوئی فرد شفیق نہیں ہے۔ موجودہ مشکل حالات میں جو افراد ہمارے علماء کی کردارکشی کرتے ہیں وہ درحقیقت قوم، انقلاب اور اسلام سے دشمنی کرتے ہیں۔
دہپابید کے خطیب نے مزیدکہا: ایسی حرکتیں دراصل حکومتی ’شورائے منصوبہ بندی برائے مدارس اہل سنت‘ کی زبردستی نفاذ کیلیے ہیں، حالانکہ ہم کسی بھی صورت میں اپنے مدارس و مساجد کو کسی بھی حکومت کے حوالے نہیں کریں گے۔

مولانامحمدطیب ملازہی: شیخ الاسلام مولانا عبدالحمیدہمارے دینی قائد ہیں
خطیب اہل سنت ’ایرانشہر‘ مولانا محمد طیب ملازہی نے مولانا عبدالحمید کی شان میں گستاخی کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ ماضی قریب و بعید میں ہم نے اور ہمارے اکابر نے ثابت کیا ہے کہ ہم پرامن زندگی کے خواہان ہیں، شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید ہماے دینی رہنما و قائد ہیں جو ہرسال دارالعلوم زاہدان کے فارغ التحصیل طلبا کے اعزاز میں عظیم الشان تقریب منعقد کرتے ہیں۔
انہوں نے مزیدکہا: جیسا کہ ہم مرشداعلی آیت اللہ خامنہ ای کا احترام کرتے ہیں اسی طرح مولانا عبدالحمید کا احترام ضروری سمجھتے ہیں۔ مولانا کا وجود انتہائی اہم اور لازمی ہے۔
مولانا محمدطیب نے کہا: موجودہ حالات کی سنگینی کو نظرانداز کرتے ہوئے بعض عناصر فرقہ پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جامع مسجد مکی اور سنی مقدسات کی توہین کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک ایسی شخصیت کو اپنے مذموم الفاظ سے یاد کرتے ہیں جو اتحاد و یکجہتی، ہم وطنوں کے حقوق اور باہمی پرامن زندگی کو یقینی بنانے کیلیے دن رات محنت کرتی ہے۔

’مولاناعبدالحمید ایرانی قوم کی ظاہری و معنوی ترقی کیلیے کوشش کرتے ہیں‘

وسطی بلوچستان کے شہر بمپور میں واقع جامع مسجد خیرآباد کے خطیب مولانا عبدالرحیم بلوچ لاشاری نے مولانا عبدالحمید کو ایرانی قوم کیلیے ناصح و خیرخواہ قرار دیتے ہوئے کہا: مولانا عبدالحمید کی مثبت سرگرمیاں شیعہ و سنی دونوں کی ترقی کیلیے ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ آپ سب کی دینی و دنیاوی ترقی چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا: شیعہ مدارس و مساجد اور علماء کے احترام کو اپنے لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں، درمقابل ہمیں امید ہے شیعہ حضرات ہمارے دینی مراکز اور علماء کا احترام کریں خاص کر حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کا جو ہمارے دینی قائد ہیں؛ آپ ہمیشہ اتحاد و یکجہتی کی راہ پر چلتے ہیں اور وطن عزیز آپ پر بجا فخر کرسکتاہے۔
انہوں نے مزیدکہا: خیرخواہی کی بنیاد پر مولانا عبدالحمید ہمیشہ آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل سنت ایران کے حقوق کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ جو لوگ بلاتعصب ان کی خدمات پر نظر رکھتے ہیں انہیں اس واضح حقیقت کا بخوبی علم ہے۔ اسی لیے ہمیں اپنی شخصیات کا احترام کرنا چاہیے اور جو رہنما مقبول عام ہیں ان کی ہرگز توہین نہیں ہونی چاہیے، ملکی حالات کا تقاضا بھی یہی ہے۔

خطیب بمپور: دینی شخصیات و عقائد کی توہین بری حرکت ہے
مولانا محمداکبر براہوئی، جامع مسجدنور(بمپور) کے خطیب و امام نے فرقہ واریت کو دشمنوں کا مقصد قرار دیتے ہوئے کہا: امت کے دشمنوں کو معلوم ہے کہ اس امت کی کامیابی کا راز اتحاد و یکجہتی میں ہے، فرقہ واریت اور نزاع اس کی ناکامی کا مقدمہ ہے۔ لہذا ہمیں فرقہ پرست عناصر کے اقدامات پر نظر رکھ کر دینی شعائر و مقدسات کی توہین سے سخت گریز کرنا چاہیے۔ عام جلسوں میں ایسی باتیں زبان پر نہیں لانی چاہیے جس سے مزید اختلاف و نزاع پیدا ہوجائے۔
مولانا براہوئی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے گویاہوئے: ہم سنی مسلمانوں نے اپنے اوپر شیعہ علماء و ممتاز شخصیات کے احترام کو لازم قرار دیاہے، وطن کی پاسداری و حفاظت کی خاطر پاسداری کے اسباب کا بھی خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔دوسرے فرقے کے ہم وطنوں سے ہمیں توقع ہے کہ ہمارے اکابر و علما کااحترام کریں خاص کر حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید حفظہ اللہ کا احترام ان پر واجب ہے۔ ہمارے دینی مراکز کا احترام ہونا چاہیے جن کی عظمت و تقدس تمام دلوں میں رچ بس گئی ہے۔

مولانامحمدگل کرمزئی: اعلی حکام شیعہ سنی فسادات کی راہ روکیں

جامع مسجد محمدی (محمدآباد خاش) کے امام و خطیب اور مدرسہ ’مخزن العلوم‘ خاش کے مدرس نے جامع مسجد مکی اور مولانا عبدالحمید کی سرگرمیوں کو اتحاد کی راہ میں قرار دیتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ بعض عناصر کیلیے امت کی وحدت ناقابل برداشت ہے۔ جیسا کہ خاش جلسے میں مولانا عبدالحمید کی شان میں گستاخی کی گئی جو ایرانی اہل سنت کی سب سے عظیم ترین شخصیت ہیں۔ وہاں موجود علماء و عمائدین نے حکیمانہ انداز میں گستاخانہ باتوں کا جواب دیا۔
مولانا کرمزئی نے مزیدکہا: جیسا کہ آپ کو جامع مسجد مکی اور حضرت شیخ الاسلام کے مقام کا علم ہے، آپ ہمیشہ اتحاد کیلیے عملی اقدامات اٹھاتے ہیں۔ میں مولانا عبدالحمید کا شاگرد ہوں، اللہ کی قسم جب ہم فارغ التحصیل ہوئے تو ان کی اہم نصیحتوں میں سے ایک یہ تھی کہ اتحاد و بھائی چارے کے داعی بن جاؤ اور کسی کی توہین مت کرو۔ آپ اہل سنت کے جائز حقوق کا مسئلہ اٹھاتے ہیں اور اس کیس کی پیروی کرتے ہیں۔
’جو کچھ خاش جلسے میں ان کے بارے بتایا گیا بالکل نامناسب تھا، اس گستاخانہ حرکت کو ہم شیعہ برادری یا انٹیلی جنس ادارے سے منسوب نہیں کرتے، انٹیلیجنس حکام کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے امن کیلیے کوشش کریں‘، انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا۔

’اتحاد عمل میں ہونا چاہیے صرف نعروں میں نہیں!‘

مولانا عبدالرشید شہنوازی، جامع مسجد طوبی (خاش) کے خطیب نے اپنے خطبے جمعہ میں اسلامی اتحاد و بھائی چارے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اس کو قرآن کی تعلیمات میں سے قرار دیا۔ انہوں نے کہا اس قرآنی حکم کو جامہ عمل پہنانا چاہیے خالی نعروں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزیدکہا: وحدت و یکجہتی کا مطلب ہے دلوں سے عداوت و بغض نکالنا، جیسا کہ اسلام سے قبل مدینہ میں اوس و خزرج قبائل میں دیرینہ دشمنی تھی لیکن اسلام نے انکو بھائی بنادیا اور اس کی برکت سے ان کی پرانی دشمنی ختم ہوگئی۔
جامع مسجد طوبی کے خطیب نے مزید کہا: یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ اتحاد عمل میں ہو، حقیقی اتحاد نعروں تک محدود نہیں رہتا۔ ملک میں ایک ہفتہ اتحاد کے نام سے منسوب ہے۔ انقلاب کے بانی اور موجودہ مرشداعلی نے کئی مرتبہ شیعہ سنی اتحاد پر زور دیاہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے طرفین کی مقدسات و عقائد کو دونوں فرقوں کیلیے ’سرخ لکیر‘ قرار دیاہے۔
مولانا شہنوازی نے مزیدکہا: ایسی صورت میں جب بعض لوگ سنی مقدسات و دینی مراکز کی توہین کرتے ہیں، یہ تنگ نظر اور مریض القلب لوگ دراصل اپنے ہی علما و اکابرین کی مخالفت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم سنی مسلمانوں کو شیعہ مقدسات کی توہین سے منع کرتے ہیں بالکل اسی طرح کسی کو اہل سنت کے عقائد و مقدسات کی شان میں گستاخی کی اجازت نہیں دیتے۔

مولانا نقشبندی: شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید ایرانی اہل سنت کے ترجمان ہیں
جنوبی بلوچستان کے شہر ’راسک‘ کے خطیب مولانا نقشبندی نے قرآن پاک سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے: بے گناہ لوگ خاص کر علمائے امت پر الزام لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اہل علم کی توہین و گستاخی احادیث کی رو سے منافقوں کی نشانی ہے۔
خطیب راسک نے مزید کہا: سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے مشترکہ دشمنوں کیلیے مسلمانوں کا اتحاد ناقابل قبول ہے۔ وہ ہمیشہ سازش کرتے ہیں تا کہ کسی طرح امت کو تفرق و اختلاف سے دوچار کریں، ان کا ایک منصوبہ بطور خاص علمائے کرام کی کردارکشی اور توہین ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے جب تک اس امت کی قیادت علمائے کرام کے ہاتھ میں ہو اور عوام کے دلوں میں علماء کا مقام موجود ہو ان کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔
خاش میٹنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: انتہائی افسوس کی بات ہے کہ فرقہ پرست اور فتنہ جو عناصر اہم حکومتی محکموں میں گھسنے اور فرقہ وارانہ فسادات پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس جلسے میں ایک شخص نے جو سکیورٹی ماہر ہونے کا دعوی کرتا تھا، ایرانی اہل سنت کے عظیم دینی مراکز اور شخصیت (مولانا عبدالحیمد اسماعیلزہی) کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاتھا، اس کی الزام تراشیوں کی بنیاد ایک نامعلوم قیدی کے اعترافی بیانات تھی۔
خطیب راسک نے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے کہا: جامع مسجد مکی اہل سنت کا مرکز ہے، تمام ممتاز علماء نے حضرت شیخ الاسلام سے اپنی وفاداری اور حمایت کا اعلان کیاہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ مولانا عبدالحمید اہل سنت ایران کے ترجمان ہیں اور ان کے مطالبات پیش کرتے رہتے ہیں۔
مولانا نقشبندی نے مزیدکہا: حکام سے کھلے الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ مسئلہ مولانا عبدالحمید کی ذات تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری سنی برادری کا مسئلہ ہے۔ راسک کے عوام کا مطالبہ ہے کہ موجودہ حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے حکام فاسد اور فرقہ پرست لوگوں کی راہ روک لیں۔

خطیب اہل سنت بخشان: مولانا عبدالحمید کی حمایت کرتے ہیں
سراوان کے مضافاتی علاقہ ’بخشان‘ کے سنی خطیب مولانا حفیظ اللہ رئیسی نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہماری قوم اپنے علماء کا دفاع کرتی ہے، ہم بھی سراوانی عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے خاش کی گستاخانہ میٹنگ کی مذمت کرتے ہیں، ہم مولانا عبدالحمید کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔

مولاناجہاندیدہ: اہل سنت کے علماء و دینی شعائر کی توہین سے انارکی پھیلتی ہے
’سوران‘ شہر کے خطیب مولانا عبدالحمید جہاندیدہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں خاش جلسے میں رونما ہونے والے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جامع مسجد مکی اور دارالعلوم زاہدان کا تعلق صرف مولانا عبدالحمید سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق پوری سنی برادری سے ہے۔ اسی طرح شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کا تعلق پورے اہل سنت سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ان حالات میں جب ملک متعدد اقتصادی پابندیوں سے دوچار ہے اور حالات بحرانی ہیں، اہل سنت کے علماء و مراکز کی توہین سے صرف بحران شدت اختیار کرتے ہیں اور مزید انارکی پھیل جاتی ہے۔
مولانا عبدالحمید کی شان میں گستاخی کی پرزور مذمت کرنے کے علاوہ آپ نے عوام کو اپنے علماء اور قائدین کی حمایت و دفاع کی دعوت دی۔

مولاناعبدالواحد: فرقہ پرست عناصر سے ملک کو خطرہ ہے

جامع مسجد حسین رضی اللہ عنہ(خاش) کے خطیب مولانا عبدالواحد ریگی نے اپنے خطبہ جمعہ کے دوران فرقہ پرست اور مجہول عناصر کو ملکی سلامتی کیلیے خطرہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا: جو غلطی حکام سے خاش میں سرزد ہوئی ا س سے سنی مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچی۔
بصیرت و شفافیت کو حکومت کرنے کی ضروریات قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا: انصاف حکام کیلیے بہت ضروری ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں اپنے جائز اور قانونی حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

’مولاناعبدالحمید کی توہین تمام سنی علماء کی توہین ہے‘

بلوچستان کے ساحلی شہر ’کنارک‘ کے سنی خطیب مولانا محمد یوسف فائزی نے جامع مسجد مکی اور حضرت شیخ الاسلام کی شان میں گستاخی کو پورے سنی مدارس و مساجد اور علمائے کرام کی شان میں گستاخی سے مترادف قرار دیا۔
انہوں نے مزیدکہا: دوسرے مسلک کے پیروکاروں کی توہین ناجائز کام ہے۔ ہم مولانا عبدالحمید کی توہین کی مذمت کرتے ہیں۔
جامع مسجد صدیقی کے خطیب نے مزیدکہا: ایسی حرکتوں سے امت کے اتحاد کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ فرقہ واریت کی جانب پہلا قدم ہے۔ اس لیے ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔

نیکشہر کے خطیب: خطے میں شیخ الاسلام کی خدمات مفید ہیں

’نیکشہر‘ کے سنی خطیب مولانا عبداللہ وحیدی فر نے اہل علم کی صحبت و مجالست کو ضروری قرار دیتے ہوئے اسلامی و قرآنی ثقافت کو مولانا عبدالحمید کی اہم خدمات سے قراردیا۔
مولانا وحیدی فر نے مزید کہا: عوام کو علماء سے تعلق رکھنا چاہیے اور جو اسلامی ثقافت کی تبلیغ میں مصروف ہیں ان کا ساتھ دینا ضروری ہے، ان کی کامیابی کا راز اسی حمایت و یکجہتی میں ہے۔ جو لوگ اہل علم سے دوری اختیار کرتے ہیں انہیں ندامت و حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
حکومتی جلسے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: مولاناعبدالحمید کی دینی خدمات خطے میں قابل قدر اور دیگر علما کیلیے قابل تقلید ہیں، علماء کو آپ کے منہج و طریقے پر چلنا چاہیے۔
خطیب نیکشہر نے مزیدکہا: اعلی حکام سے ہماری درخواست ہے کہ دل بڑا کرکے سنی برادری کے تعلیمی و مذہبی امور میں مداخلت سے گریز کریں، انہیں آزادی ملنی چاہیے۔ ہمارے نزدیک سب سے قیمتی شے ہمارا دین ہے۔ صحابہ کرام خاص کر امہات المومنین (رض) کی شان میں گستاخی اہل سنت کے احساسات کو مجروح کرتی ہے۔

مولانایارمحمد امراء: بعض حکومتی عناصر ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں
سراوان کے ممتاز عالم دین مولانا یارمحمدامراء نے خاش کی گستاخانہ جلسے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا: حکومتی اداروں میں گھسے ہوئے بعض عناصر ملک کیلیے نقصان پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
جامع مسجد خضرا (سراوان) کے خطیب نے مزیدکہا: ایک طرف سے ایسی صورتوں میں جب ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں تو عوام خاص کر نوجوان ہمیں ’حکومتی علما‘ اور سرکاری ملا قرار دیتے ہیں، ہم پر الزام عائد ہوتاہے کہ ہم بک چکے ہیں۔ دوسری جانب اگر ہم اپنے حقوق کی بات کریں تو حکام کی جانب سے الزام لگتاہے کہ آپ لوگوں کو اکساتے ہیں، عوام کو بڑھکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل حکومت میں شامل بعض عناصر ملک کیلیے شر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: علمائے کرام اور مقدسات کی توہین کرنے کا مقصد بھی یہی ہے۔ یہ لوگ فرقہ واریت پیدا کرکے عوام کو رجیم سے مایوس کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے جب عوام کو احساس ہو کہ ان کے دین و ایمان خطرے میں ہیں تو وہ ہر طرح کی قربانی کیلیے تیار ہوجائیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں