ایرانی بلوچستان: خاش کے حکومتی جلسے کی شدیدمذمت جاری ہے

ایرانی بلوچستان: خاش کے حکومتی جلسے کی شدیدمذمت جاری ہے

خاش/سراوان(سنی آن لائن)گزشتہ دنوں خاش میں رونما ہونے والے حکومتی گستاخانہ جلسے پر ایرانی صوبہ بلوچستان کے مختلف شہروں کے علماء، عمائدین، اساتذہ، نوجوانوں اور شخصیات نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پرزور الفاظ میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید اور جامع مسجد مکی و دارالعلوم زاہدان کیخلاف شرانگیز مہم کی مذمت کی ہے۔

خاش سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اتوار 29جنوری کو شہر کے ممتاز دینی ادارہ ’’مخزن العلوم‘‘ میں علمائے کرام، قبائلی عمائدین و شخصیات اکٹھے ہوئے جہاں ایک صوبائی سکیورٹی ذمے دار کے غیرذمہ دارانہ بیانات کی شدید مذمت کی گئی۔

دوسری جانب صوبہ سیستان وبلوچستان کے تین شہروں (سراوان، سیب سوران اور زابلی) کے علمائے کرام، قبائلی رہنماؤں، نوجوانوں اور یونیورسٹیز کے اساتذہ نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے ’خاش کے حکومتی جلسہ‘ اور شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی شان میں گستاخی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ’مخزن العلوم خاش‘ میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ ہذا کے مہتمم مولانا محمدگل ریکی نے کہا: دین کی حفاظت کیلیے مسلمانوں کے باہمی اتحاد و بھائی چارہ ضروری ہے۔ مقصد تک پہنچنے کیلیے اتحاد شرط ہے۔

قبائلی عمائدین کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: آپ کو دینی مراکز کی ہمہ جہت حمایت و سپورٹ کرنا چاہیے۔ مالی تعاون کے ساتھ ساتھ معنوی حمایت اور یکجہتی بھی ضروری ہے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید مشکلات سہنے کے باوجود اسباب کے تحت بھی دعا فرمائی کہ اے اللہ! اسلام کو دو عمروں (عمربن الخطاب اور عمرو بن الہشام) میں سے کسی ایک کی نصرت عطا فرما۔

مولانا محمدگل نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا: ہمارا مقصد اس اجتماع سے کوئی سیاسی یا حکومت مخالف مہم چلانا نہیں ہے۔ ہم نے ہمیشہ نظام اور اسلامی جمہوریہ سے دفاع کیاہے۔ حکمران والد کی مانند ہیں اور عوام اولاد کی طرح ہیں، بعض اوقات بیٹوں کے درمیان کسی بات پر اختلاف پیدا ہوتاہے تو باپ کو سب کی بات سننی چاہیے۔

انہوں نے کہا: ہمارے صوبے میں بعض حکومتی افراد بظاہر خود کو ملک کے حامی گردانتے ہیں لیکن ان کے اقدامات سراسر اتحاد کیخلاف ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلیے سرتوڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ عناصر اتحاد کے دشمن ہیں اور الزام تراشی سے اعلی حکام کو ہمارے بارے میں بدگمان کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ کل کی میٹنگ میں ایک شخص نے انتہائی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام اور جامع مسجد مکی پر الزامات کی بارش کردی۔

حاضرین سے درخواست کرتے ہوئے انہوں نے کہا: جن کے صوبائی حکام سے تعلقات ہیں وہ انہیں سمجھادیں کہ ایسے عناصر کو لگام لگادیں جو فرقہ وارانہ نزاع پیدا کرنے کے درپے ہیں اور ہمارے علماء و مراکز کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔ مولانا عبدالحمید کی خدمات سب کیلیے عیاں ہیں، کیا ان کا جرم یہ ہے کہ دوردراز اور پس ماندہ علاقوں میں قرآن پاک کی تعلیم کیلیے استاد بھیجتے ہیں اور ایرانی اہل سنت کے جائز اور آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں؟ یہ خدمت حکام کیلیے کیوں ناقابل برداشت ہے؟

مخزن العلوم خاش کے مہتمم نے مزید کہا: یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ ہمارے یہاں ایسے عہدیدار آئے ہیں جو شام اور بحرین جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ قبائلی عمائدین متعلقہ حکام خاص کر رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای، چیف جسٹس اور وزارت انٹیلی جنس کو اس حوالے سے آگاہ کریں، یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ ایک صوبائی عہدیدار یہ کہے کہ میں ’مکی مسجد‘ اور ’دارالعلوم مکی‘ نہیں کہتا بلکہ ’مکی تحریک‘ کہتا ہوں! پھر ایک مجہول شخص کی باتوں سے استناد کرے جو ان کے ہاتھوں میں ہے اور قید ہوچکاہے۔

مولانا ریکی کے بعد کرنل ’عیدمحمد عیدوزہی‘(ریٹائرڈ) نے اتحاد کے بارے میں گفتگو کرنے کے بعد کہا: ہم قبائلی عمائدین ڈرپوک ہیں، جو ہمارے حقوق کی بات کرتے ہیں ہم ان کی حمایت سے ڈرتے ہیں، کیوں صرف اہل مدارس اہل سنت کے حقوق کا دفاع کریں؟ ہم کمزور ہیں اس لیے صرف مدارس و علماء پر الزام لگتاہے۔ کل کی میٹنگ میں کیوں صرف ایک سردار نے احتجاج کرتے ہوئے بات کی تھی، کیا باقی حضرات سہمے ہوئے تھے؟ آپ کا خاموش رہنا کوئی ہنر نہیں ہے۔کچھ عناصر آپ کے اور علماء کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: حضرت شیخ الاسلام ہمارے حقوق کا دفاع کرتے چلے آرہے ہیں، ہمیں بھی ان کا دفاع کرنا چاہیے، خاموشی ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسے سرکش عناصر کو سزا ملنی چاہیے، سب جان لیں کہ ہم مولانا عبدالحمید کے فدائین ہیں چونکہ انہوں نے اپنی جان ہماری خاطر اپنی ہتھیلی پر رکھی ہے اور ہمارے مطالبات و حقوق حاصل کرنے کیلیے دن رات کوشش کرتے ہیں۔ جب ایک چیونٹی کو تنگ کیاجائے تو وہ ردعمل دکھاتی ہے ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ خاش کے گورنر جواب دے کہ کل ایسا کیوں ہوا؟ کیا یہ لوگ امریکا کے ایجنٹ ہیں یا حکومتی عہدیدار کہ شیعہ سنی اختلاف پیدا کرتے ہیں، ہم اتحاد کے حامی ہیں لیکن ہم پر الزام لگایا جاتاہے اور ہمیں مشتعل کیاجاتا ہے۔

عیدمحمد عیدوزہی کے بعد کْرد قبیلے کے سردار ’ولی محمد کرد‘ نے خطاب کیا جس نے کہا: ہم تمام علماء کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے علمائے کرام کی شان میں گستاخی کی جائے تو یہ امر ناقابل برداشت ہوگا۔ اگر ہم خاموش رہیں تو ہم مسلمان نہیں! اللہ نہ کرے قبائلی عمائدین دنیا کی چندروز کی زندگی کی خاطرخوشامدی و چاپلوسی پر اتر آئیں۔

اس کے بعد حافظ عبدالحکیم کردی نے اتحاد کے حوالے سے علمائے اہل سنت کا موقف مختصر الفاظ میں پیش کرتے ہوئے کہا: انقلاب کی کامیابی سے لیکر آج تک ہمارے علماء نے اتحاد کیلیے کوشش کی ہے، شورائے مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان کے تقریبا پچاس مدارس میں کوئی اتحاد مخالف مہم نہیں پائی جاتی ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں اپنے مدارس میں حکومتی مداخلت قبول نہیں کریں گے، اسی لیے نام نہاد ’شورائے منصوبندی برائے مدارس اہل سنت‘ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے کہا: حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی شان میں گستاخی پوری اہل سنت برادری کی گستاخی شمار ہوگی، آپ کا تعلق پورے عالم اسلام سے ہے۔ یاد رہے تمام خطابوں کے دوران حاضرین نے نعرہ تکبیر سے اپنی حمایت وتصدیق کا اعلان کردیا۔

دوسری جانب وسطی بلوچستان کی سرکردہ شخصیات نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے: جو کچھ اٹھائیس جنوری کو خاش میں پیش آیا سب کیلیے حیران کن تھا، مولانا عبدالحمید کی شان میں گستاخی اور جامع مسجد مکی کی بے احترامی اہل سنت کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش ہے جو فرقہ پرست عناصر کی کارستانی ہے۔

سراوان، سیب سوران اور زابلی کے دینی و ثقافتی اور قبائلی رہنماؤں نے کہاہے: جب بھی کوئی شخص اسلام کے دفاع کیلیے کمرِہمت باندھتاہے تو بعض لوگ جنہیں ان کی پوزیش خطرے میں نظر آتی ہے کردارکشی اور الزام تراشی کا سہارا لیتے ہیں۔ معاشرے میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہے، اس لیے روپ بدل کر یہ موقع پرست عناصر اسلام کے حقیقی مدافعین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔

بیان میں آتاہے: ایک بار پھر ہم اسلامی جمہوریہ ایران سے اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہیں لیکن علمائے کرام و دینی اداروں خاص کر حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم اور جامع مسجدمکی و دارالعلوم زاہدان کیخلاف ہرزہ سرائی ناقابل قبول ہے اور ایسا صرف فرقہ پرست لوگ کیاکرتے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای و دیگر حکام سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ان لوگوں کا راستہ روک لیں اور انہیں جلد سزا دلوائیں۔

مشترکہ بیان میں مزید آیا ہے: ہم مولانا عبدالحمید اور جامع مسجد مکی و دارالعلوم زاہدان کی تمام سرگرمیوں اور خدمات سے حمایت کا اعلان کرتے ہیں، چونکہ ہمیں یقین ہے جو کچھ حضرت شیخ الاسلام مطالبہ کرتے ہیں وہ پوری سنی برادری کے مطالبات ہیں، ان مطالبات کی پیروی اور انہیں جامہ عمل پہنانا ہم سب کا مطالبہ ہے۔ خاش میں رونما ہونے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور متعلقہ حکام سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں