خاش جلسہ؛ مولاناعبدالحمید و اساتذہ دارالعلوم کی مذمت

خاش جلسہ؛ مولاناعبدالحمید و اساتذہ دارالعلوم کی مذمت

زاہدان(سنی آن لائن) دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ کرام اور حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے خاش میں منعقد حکومتی جلسہ میں ہونے والے واقعات پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے شدید الفاظ میں اس کی مذمت کی۔

ایرانی اہل سنت کے سب سے بڑے دینی ادارہ، دارالعلوم زاہدان، کے اساتذہ نے اتوار29 جنوری کو ہفتہ وار میٹنگ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے خاش میں منعقد ایک حکومتی جلسے میں حضرت شیخ الاسلام اور جامع مسجد مکی و دارالعلوم زاہدان کی شان میں گستاخی کی شدید مذمت کی۔ اساتذہ کرام نے خاش کے علماء و عمائدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی تعریف کی جنہوں نے ایک سیکورٹی اہلکار کی ہتک آمیز باتوں اور حرکتوں پر احتجاج کیا تھا۔

اساتذہ دارالعلوم زاہدان نے اتحاد، امن ا ور بھائی چارے کو نشانہ بنانے والے افراد کی مذمت کرتے ہوئے حکومتی اقدامات پر پریشانی کا اظہار کیا۔

حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے بعض اہم مسائل کے حوالے سے گفتگو کی۔ حکومتی عہدیداروں کی توہین و جھوٹ پر مبنی دعووں کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے کہا: انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بعض تنگ نظر اور متعصب عناصر حکومتی اداروں اور حساس محکموں میں گھس جانے مین کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ عناصر ذاتی تنازعات اور تعصب کا شکار ہیں۔ ان لوگوں کو ملک کی بحرانی صورتحال اور مشرق وسطی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی سنگینی کا ادراک نہیں ہے۔ یہ عناصر فرقہ وارانہ فسادات چاہتے ہیں اور ان کی حماقت سے خطے کا امن تباہ ہوجائے گا۔ ان کی باتیں ملک اور عوام کے مفادات کیخلاف ہیں۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے ممتاز عالم دین نے کہا: یہی متعصب عناصر غلط الزامات اور افواہیں پھیلانے سے تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ اعلی حکام اور ’عدالت برائے علماء‘ کو غلط اور سراسر جھوٹی رپورٹس بھیجتے ہیں۔ اسی وجہ سے سنی علمائے کرام کو عدالت میں پیشی کیلیے بلایا جارہاہے، اس سے عدالتیں اور علمائے کرام دونوں تکلیف و مشقت میں پڑجاتے ہیں۔

’درحقیقت کھوکھلے الزامات اور تہمتوں کا مقصد اہل سنت ایران پر دباؤ بڑھانا اور انہیں مزید مشقت میں ڈالنا ہے‘ مولانا عبدالحمید نے تاکید کرتے ہوئے کہا۔

ایک الزام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: کچھ عناصر ہم پر مسٹر مشائی سے ملاقات کا الزام لگاتے ہیں اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب صدر احمدی نژاد صوبائی دورے پر زاہدان آئے تھے تو ہمیں ایک جلسہ عام میں شرکت کی دعوت دی گئی، جلسے سے نکلتے ہوئے راستے میں مسٹر مشائی سے ملاقات ہوئی تو ہم نے درخواست کی کہ احمدی نژاد سے علیحدہ ملاقات کا انتظام کیاجائے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور جمعے کو ہم نے اس پر تنقید بھی کی۔ رحیم مشائی صدر احمدی نژاد کے دفتر کے سربراہ اور حکومتی ذمہ دار ہیں۔ منتخب حکومت نے ان کو عہدہ دیا ہے، وہ کوئی سنی شہری تو نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: اہل سنت پر اعتراض کیا جاتاہے کہ فلان صدارتی انتخابات میں کیوں فلان شخص کو ووٹ دیاگیا، حالانکہ تمام امیدواروں کو سپریم کونسل منظوری دیتی ہے، حتی کہ ایک امیدوار کو جب ردکیا گیا تو سپریم لیڈر خامنہ ای نے مداخلت کرتے ہوئے ان کی امیدواری کو باقی رکھا۔ اگر کسی کو شکوہ ہے یا تکلیف تو سپریم کونسل اور آیت اللہ خامنہ ای کا گریبان پکڑے، قوم کا قصور اس مسئلے میں کیا ہے؟

حضرت شیخ الاسلام نے اہل سنت پر الزام تراشی کو تعجب خیز قرار دیتے ہوئے کہا: عجیب بات ہے کہ حکام آپس میں جب دست و گریبان ہوتے ہیں تو الزام ہم پر لگتاہے، لاٹھی ہمارے سر پر لگتی ہے اور ہم سے کوئی آسان تر ہدف انہیں نظر نہیں آتا۔

آخر میں مولانا عبدالحمید نے علمائے کرام اور دینی مدارس کے ذمے داروں کو استقامت اور مزید ہوشیاری کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا علمائے کرام اور مدارس کیخلاف سازشیں ہورہی ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں