افغانستان کا مستقبل

افغانستان کا مستقبل

مکمل چھوڑرہا ہے اور نہ چھوڑنے کا سوچ رہا ہے لیکن امریکہ افغانستان میں فوج کی اتنی بڑی تعداد اور اس قدرزیادہ اخراجات کو برقرار رکھنے کا بھی مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسے جلدی ہے اور بہت جلدی ہے۔
صدارتی انتخابات قریب ہیں اور ان سے قبل صدراوبامہ افغان مسئلے کے اونٹ کو کسی ایک کروٹ بٹھانا چاہتا ہے ۔ ادھر خراب ہوتی معیشت کا دباؤ ہے اور اس قدر زیادہ ہے کہ بری افواج کی تعداد پانچ لاکھ سے کم کی جارہی ہے۔
امریکہ کا عالمی امیج پہلے بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا لیکن عراق کی فوج کشی نے تو اسے بری طرح خراب کرکے رکھ دیا ہے۔ اسے اس کی بھی فکر لاحق ہے اور یوں امریکی اسٹیبلشمنٹ اپنا امیج جارح کی بجائے صلح جو کا بنا نا چاہتی ہے ۔ مذکورہ عوامل کی وجہ سے صدر اوبامہ حد درجہ عجلت کا مظاہرہ کررہا ہے اور وہ کسی بھی قیمت پرجلد از جلد ایسا انتظام چاہتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ان کی کمبیٹنگ فورسز(Combating forces) افغانستان سے نکلیں اور اڈوں کی شکل میں ان کا ملک اپنے کنٹرول اور اثرورسوخ کو بھی یقینی بنائے۔
اوبامہ انتظامیہ نے پہلے طاقت کے بھرپور استعمال کے ذریعے طالبان کو دبانے کی کوشش کی ۔ وہاں سے ناکام ہوئی تو ری انٹییگریشن (Re-integration)کے نام پر طالبان میں پھوٹ ڈالنے‘ کرزئی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور دیگر داخلی حربے استعمال کئے ۔ یہ سب بے نتیجہ ثابت ہوئے اور حامد کرزئی کے ساتھ تعلقات پہلے بھی زیادہ خراب ہوئے تو پاکستان کی طرف آئی ۔ پاکستان کو لالچ بھی دی اور دباؤ بھی ڈالا لیکن یہاں سے بھی مکمل مایوس ہوئی تو خود طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کردیا۔
امریکی سنجیدگی دیکھ کر اب کے بار طالبان بھی آمادہ ہوگئے ۔ طالبان پہلے شرط عائد کررہے تھے کہ پہلے غیرملکی افواج نکلیں گی ‘ پھر مذاکرات ہوں گے لیکن اب انہوں نے بھی لچک کا مظاہرہ کرکے قیدی رہنماؤں کی رہائی کی صورت میں مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ۔ خفیہ رابطے تو کب کے ہورہے تھے اور ماضی میں بھی براہ راست خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہیں لیکن اب قطرمیں طالبان کا باقاعدہ دفتر کھولا جائے گا اور اعلانیہ مذاکرات ہوں گے ۔
مذاکرات کے آغاز کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دو دن میں نتیجہ نکل آئے گا کیونکہ طالبان اور امریکہ کے مطالبات میں اب بھی بعدالمشرقین ہے لیکن سال رواں افغانستان کے حوالے سے نہایت اہم اور فیصلہ کن ثابت ہوگااور افسوس کہ اس فیصلہ کن مرحلہ پر پاکستان کے اندر اداروں کا ٹکراو عروج پر ہے جبکہ افغانستان کے تعلقات بھی نہایت خراب ہیں جس کا فائدہ امریکہ کو پہنچ رہا ہے اور امریکہ کے سامنے ان دونوں کی مزاحمت یا بارگیننگ کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔
2011ء کے اوائل میں پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے تعلقات نہایت بہتر ہوگئے تھے ۔ دونوں ممالک نے طالبان کے ساتھ مفاہمت کے لئے مشترکہ کمیشن قائم کیا تھا اور یہ امکان پیدا ہوچلا تھا کہ دونوں مل کر امریکہ کے خطرناک اور ناپاک منصوبوں کو ناکام بنائیں گے۔
حامد کرزئی کا رویہ امریکہ کے مقابلے میں پاکستان سے زیادہ جارحانہ تھا اور وہ امریکہ کے ساتھ سہ فریقی کمیشن کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کررہے تھے لیکن پاکستان نے ان کی اس خواہش کو سنجیدہ نہ لیا۔ افغان حکومت کے مطالبے پر پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے کافی ہوم ورک بھی کرچکا تھا لیکن کرزئی صاحب اپنے بعض پاکستان مخالف مشیروں کے ہاتھوں دھوکہ کھا گئے اور پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعدان کی حکومت نے پاکستان پر جو الزامات لگائے ان سے تعلقات بہت زیادہ کشیدہ ہوگئے اور مذکورہ تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ربانی کی موت کے بعد پاکستان مخالف بیانات دے کر اور ہندوستان کے ساتھ تزویراتی معاہدہ کرکے حامد کرزئی نے پاکستان کو ایک بار پھر دھوکہ دیا ہے اور اب وہ ان کا نام سننے کا بھی روادار نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سفیروں کی کوششوں سے حالات کسی حد تک دوبارہ بہتر ہورہے ہیں اور توقع ہے کہ مستقبل قریب میں حامد کرزئی کو دورہ پاکستان کی اجازت مل جائے جس کے بعد مذکورہ کمیشن کی دوبارہ فعالیت کا بھی امکان ہے لیکن ظاہر ہے کہ تعلقات کو پروفیسر ربانی کے قتل سے پہلے کے مقام پر لانے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
گزشتہ سال جب پاکستان اور افغانستان قریب آئے اور امریکہ کواپنے عزائم خاک میں ملتے ہوئے نظر آئے تو اس نے ان دونوں ممالک کو بائی پاس کرکے طالبان کے ساتھ خفیہ رابطوں کا آغاز کردیا۔ تب بھی طیب آغا کے ذریعے خفیہ ملاقاتیں ہوئیں لیکن جب پاکستان نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو طالبان نے وہ سلسلہ توڑ دیا اور امریکی ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اب کے بار امریکہ نے مذاکرات کے عمل سے افغان حکومت کو یکسر باہر رکھا ہوا ہے البتہ پاکستانی حکومت باخبر اور معاون ہے۔ چونکہ افغانستان کے ساتھ معاملات خراب ہیں ‘ اس لئے اب کے بار پاکستان بھی مزاحمت نہیں کرسکتا چنانچہ ہمارے طاقتور ادارے نہ صرف اس عمل میں معاون ہیں بلکہ حامد کرزئی کے ساتھ مفاہمت کیلئے انہوں نے طالبان کو قائل کرنے کے لئے ہوم ورک کیا تھا ‘ وہ سب امریکہ کے کام آرہا ہے ۔ (جاری ہے)

سلیم صافی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ نیوز)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں