وعدہ خلافی ہمارے سماج میں!

وعدہ خلافی ہمارے سماج میں!

الله تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے آخرت کا نظام یہ رکھا ہے کہ چیزوں کامہیا ہونا انسان کی خواہشات کے تابع ہو گا، انسان جو چاہے گا فوراً اس کے لیے وہ چیز فراہم ہو جائے گی :﴿ ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون﴾․ ( حم السجدہ:31)

لیکن دنیا کا معاملہ اس سے مختلف ہے ، یہاں انسان ایک چیز کی خواہش کرتا ہے ، لیکن وہ اسے بر وقت پورا نہیں کر سکتا، وہ ایک چیز کا ضرورت مند ہوتا ہے، لیکن وہ چیز اسے بر وقت مہیا نہیں ہوتی ، اسی لیے انسان ایک دوسرے سے لین دین کا محتاج ہوتا ہے ، اس لین دین میں اکثر عہد وپیمان کی نوبت آتی ہے ، اس لیے شاید ہی کوئی انسان ہو جس کو زندگی کے مختلف مراحل میں خود وعدہ کرنے یا دوسروں کے وعدہ پر بھروسہ کرنے کی نوبت نہ آتی ہو ، وعدہ کرنے والے پر دوسرا شخص بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے او ربعض دفعہ اس اعتماد پر خود بہت سے معاملات طے کر گزرتا ہے ، اس لیے وعدہ کی بڑی اہمیت ہے۔

اس لیے اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا:﴿ اوفوا بالعھد ان العھد کان مسئولاً﴾․ ( بنی اسرائیل:34)
قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے ، جو وعدہ کو پورا کیا کرتے ہوں۔ ( البقرة:22)

ایک او رموقع پر بھی ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنے وعد ہ کا پاس ولحاظ رکھتے ہوں، ﴿ والذین ھم لا مٰنٰتھم وعھدھم راعون﴾․ (مومنون:8)

خود الله تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے کہ الله تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔﴿ ولن یخلف الله وعدہ﴾․ (الحج:6)

الله کے نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا گیا کہ وہ وعدہ کے سچے تھے:﴿إنہ کان صادق الوعد﴾․ ( مریم:54)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعہ بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ۔ ( بخاری حدیث نمبر:33)

نفاق کفر کی ایک قسم ہے اور وعدہ خلافی کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے نفاق قرار دیا ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس قدر مذموم بات ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ ایفائے عہد کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ اس کی نظیر ملنی دشوار ہے۔ عبدالله بن ابی الحمساء سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم سے خرید وفروخت کی، آپ کی کچھ چیز باقی رہ گئی ، میں نے وعدہ کیا کہ میں یہ چیزیں یہاں لے کر آتا ہوں ، میں بھول گیا، یہاں تک کہ آج اور کل کا دن گزر گیا، تیسرے دن میں حاضر ہوا تو آپ اسی جگہ پر تھے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے صرف اس قدر فرمایا: تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا، میں یہاں تین دنوں سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ ( ابوداؤد، حدیث نمبر4996)

وعدہ کی پابندی اور ایفاءِ عہد کا یہی سبق آپ صلی الله علیہ وسلم سے آپ کے رفقاء نے پڑھا او راپنی عملی زندگی میں اسے برت کر دکھایا، چناں چہ حضرت عبدالله بن عمر کی وفات کا وقت آیا، تو فرمایا کہ قریش کے ایک شخص نے میری بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام دیا تھا اور میں نے اس سے کچھ ایسی بات کہی تھی جو وعدہ سے ملتی جلتی ہے، تو میں ایک تہائی نفاق یعنی نفاق کی تین میں سے ایک علامت کے ساتھ الله سے ملنا نہیں چاہتا، اس لیے میں تم لوگوں کو گواہ بناتاہوں کہ میں نے اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا۔ ( احیاء العلوم:132/3)

ان واقعات سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی نگاہ میں وعدہ کو پورا کرنے کی کس قدر اہمیت تھی! دوست ہو یا دشمن، اپنا ہو یا بیگانہ او رمسلمان ہو یا غیر مسلم ، ہر ایک کے ساتھ عہد کی پابندی ضروری ہے، رسول الله صلی الله علہی وسلم صلح حدیبیہ سے جوں ہی فارغ ہوئے حضرت ابوجندل رضی الله عنہ خون میں لہولہان او رپاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی تشریف لے آئے اور مسلمانوں سے عرض کناں ہوئے کہ انہیں مدینہ لے جایا جائے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اہل مکہ کو راضی کرنے کی کوشش کی ، کہ اس دفعہ سے، جو مکہ سے مسلمان ہو کر مدینہ جانے والوں کو واپس کرنے کے سلسلہ میں ہے ، حضرت ابو جندل رضی الله عنہ کو مستثنیٰ رکھا جائے ، لیکن اہل مکہ نے نہیں مانا، چناں چہ بالآخر آپ نے انہیں واپس فرمادیا، اسی طرح غیر مسلم قبائل سے آپ کے معاہدات ہوئے، آپ نے ان معاہدات کا پورا خیال رکھا، بلکہ بعض دفعہ مخالفین کی عہد شکنی کو برداشت کرتے ہوئے بھی آپ اپنے عہد پر قائم رہے۔

افسوس کہ اخلاقی انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج سماج میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروج ہو گئی ہیں اور لوگوں کے ذہن میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی، عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ قرض وغیرہ کے لین دین ہی سے وعدہ کا تعلق ہے ، حالاں کہ ہم زندگی کے تمام مراحل میں عہد وپیماں سے گزرتے ہیں، معاملات جتنے بھی ہیں ، نکاح، خرید وفروخت، شرکت اور پارٹنر شپ، دو طرفہ وعدہ ہی سے عبارت ہے ، اسی لیے معاملات کو عقد کہا جاتا ہے، عقد کے معنی دو طرفہ وعدہ او رمعاہدہ کے ہیں ، الله تعالیٰ نے ایک سے زیادہ مواقع پر ایفائے عقود کی طرف متوجہ فرمایا ہے :﴿واوفوا بالعقود﴾ ․ (المائدہ:1)

نکاح کے ذریعہ مرد عورت کے ساتھ حسنِ سلوک اور اس کے اخراجات کی ادائیگی کا عہد کرتا ہے اور عورت جائز باتوں میں شوہر کی فرماں برداری کا وعدہ کرتی ہے ، لہٰذا اگر شوہر بیوی کے ساتھ حق تلفی کرے یا بیوی شوہر کے ساتھ حکم عدولی تو نہ صرف حق تلفی اور عدول حکمی کا گناہ ہو گا، بلکہ وہ وعدہ خلافی کے بھی گناہ گارہوں گے ، بیچنے والا گاہک سے مال کے صحیح ہونے اور قیمت کے مناسب ہونے کا وعدہ کرتا ہے ، اگر وہ گاہک سے عیب چھپا کر سامان بیچے یا قیمت میں معمول سے زیادہ نفع وصول کر لے اور گاہک کوجتائے کہ اس نے معمولی نفع پر سامان فروخت کیا ہے تو یہ عقد تجارت کے ذریعہ فریقین ایک دوسرے کے ساتھ جو عہد کرتے ہیں ، اس کی خلاف ورزی ہے۔

جب آپ کہیں ملازمت کرتے ہیں تو سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ میں جو اوقات کار متعین ہوں، آپ ان اوقات میں اپنی ڈیوٹی پر حاضر رہنے کا عہد کرتے ہیں، اگر آپ ان اوقات کی پابندی نہ کریں، دیر سے دفتر پہنچیں، پہلے دفتر سے نکل جائیں یا درمیان میں دفتر چھوڑ دیں، یا دفتر کے اوقات میں مفوضہ کاموں کو انجام دینے کے بجائے اپنے ذاتی کام کرنے لگیں ، تو یہ بھی وعدہ کی خلاف ورزی میں شامل ہے ، بعض شعبوں میں ملازمین کو خصوصی الاؤنس دیا جاتا ہے کہ وہ پرائیوٹ طور پر کوئی اور کام نہ کریں ، خاص کر میڈیکل شعبہ میں گورنمنٹ چاہتی ہے کہ ڈاکٹر کی پوری صلاحیت سرکاری دواخانے میں آنے والے مریضوں پر خرچ ہو ، کیوں کہ انسان کی قوت کار محدود ہے اورجو شخص ہسپتال میں آنے سے پہلے اپنی قوت ڈھیر سارے مریضوں کو دیکھنے پر صرف کر چکا ہو، یقینا اب جو مریض اس کے سامنے آئیں گے ، وہ کماحقہ ان کی تشخیص نہیں کرسکے گا، اب اگر کوئی شخص گورنمنٹ سے الاؤنس بھی حاصل کرے اور نجی کلینک اور نرسنگ ہوم بھی چلائے تو یہ وعدہ خلافی ہی کے زمرے میں آئے گا اور یہ بات تو ستم بالائیستم ہو گی کہ جب کوئی مریض سرکاری دواخانہ میں آئے تو معالج اس سے ایسی بے اعتنائی برتے ، کہ وہ اس کے پرائیوٹ دواخانہ سے رجوع ہونے پر مجبور ہو جائے، یہ وعدہ خلافی کے ساتھ ساتھ عوام پر کھلا ہوا ظلم بھی ہے۔

آج کل بعض سواریوں کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے میٹر لگے ہوئے ہیں، اس میٹر میں فریقین کی رعایت ملحوظ ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ پسنجر کی مجبوری اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے ، میٹر سے زیادہ پیسے طلب کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی وعدہ خلافی کے زمرہ میں داخل ہے، کیوں کہ گورنمنٹ کا ٹیکس لائسنس ٹیکس کے قواعد وضوابط کے ساتھ مربوط ہے، گویا لائسنس لینے والا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کی ہدایت کے مطابق ہی پیسے وصول کرے گا، لوگوں کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے زائدپیسوں کا طلب گار ہونا اس عہد کی خلاف ورزی ہے۔

وعدہ کا تعلق ہماری تقریبات، جلسوں اور دعوتوں سے بھی ہے ، مثلاً دعوت نامہ میں لکھا گیا ہے کہ نکاح عصر کے بعد ہو گا، لیکن جب تقریب میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ نوشہ صاحب اپنی شانِ خاص کے ساتھ عشاء کے بعد تشریف لائے، دعوت نامہ میں لکھا گیا کہ طعام ولیمہ8 بجے شب میں ہے ، لیکن حقیقی معنوں میں دعوت کی ابتدا دس بجے شب سے ہوئی۔ کیا یہ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں ہے ؟ غور کیجیے کہ لوگ ایسی تقریبات میں شرکت اپنے تعلقات کی پاس داری میں کرتے ہیں، کسی کے یہاں بیماری ہے ، کوئی خود بیمار ہے ،کسی نے تقریب کے وقت کے لحاظ سے آئندہ پروگرام بنا رکھا ہے ، ایسے مواقع پر یہ تاخیر اس کے لیے کس قدر گراں گزرتی ہے آکر واپس ہونے میں میزبان کی ناگواری کا اندیشہ او رانتظار کرنے میں دوسرے پروگرام متاثر!

افسوس کہ دینی جلسوں اور پروگراموں میں بھی ہم اس کی رعایت ملحوظ نہیں رکھتے، اعلان ہوا کہ نمازِ عشا کے فوراً بعدجلسہ شروع ہو گا، لیکن عملاً مزید دو گھنٹہ تاخیر سے جلسہ کا آغاز ہوا، دعوت نامے میں صبح 9 بجے سے جلسہ کا اعلان کیا گیا ، لیکن جلسہ کا آغاز ہی11 بجے کے بعد ہوا، یہ وعدہ خلافی بھی ہے اوروقت کی ناقدری بھی، کچھ یہی حال بعض مقررین کا ہوتا ہے ، مقرر صاحب کو وقت 20 منٹ کا دیا گیا، لیکن جب مائک ان کے ہاتھ میں آیا تو انہیں یہ خیال پیدا ہوگیا کہ اس پروگرام میں ان کے سوا کسی اور کو تقریر کا حق نہیں اور اس طرح دوسرے مقررین کے لیے یا تو وقت نہیں بچا، یا سامعین کے صبر کا امتحان ہوتا رہا، حالاں کہ اسلام نے تمام عبادتوں کو وقت کے ساتھ مربوط رکھا ہے، نماز کے لیے اوقات مقرر ہیں، وقت گزر جائے تو نماز قضا ہو جائے گی ، وقت سے پہلے پڑھ لی جائے تو نماز ادا ہی نہ ہو گی ، روزہ بھی وقت سے متعلق ہے ، دو منٹ پہلے افطا رکر لے تو روزہ درست نہیں ہو گا، دو منٹ بعد سحری کھائیں تب بھی روزہ فاسد ہو جائے گا، حج بھی پانچ مقررہ ایام میں کیا جاتا ہے اور حج کے تمام افعال کے لیے ایام واوقات مقرر ہیں، زکوٰة کا تعلق بھی مال پر سال گزرنے سے ہے ، عجیب بات ہے کہ جس دین میں وقت کا اتنا پاس ولحاظ ہو ، اسی دین کے ماننے والوں میں وقت کی اس درجہ ناقدری او رناحق شناسی !یہ سب باتیں وعدہ خلافی میں داخل ہیں!

ہم جب کسی ملک کی شہریت اختیار کریں تو یہ اس ملک کے قوانین پر عمل کرنے کا عہد کرنا ہے ، لہٰذا جب تک وہ قوانین اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہو ں یا صریحاً ظلم پر مبنی نہ ہو ان قوانین کا پابند رہنا ہم پر واجب ہے اور ان کی رعایت نہ کرنا ملک کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی ہے، اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے غرض، سماجی زندگی میں ہم ہر جگہ ایک عہد کے پابند ہیں ، بعض عہد ہم اپنی زبان سے کرتے ہیں، بعض عہد ملک کے شہری ہونے کے لحاظ سے از خود ہم سے متعلق ہو جاتا ہے ، بعض عہد کسی معاملہ کی وجہ سے شرعاً ہمارے ذمہ ہوتا ہے او ربعض سماج کے عرف ورواج کی بنیاد پر بھی ہمارے لیے واجب العمل ہوتا ہے، ہم پر ان سب کی پاس داری ضروری ہے ، مگر زندگی کے کتنے ہی مراحل میں ہم اپنے عہد وپیمان توڑتے ہیں اور وعدے وفا نہیں کرتے ،اس پر دقت نظر کے ساتھ غور کرنے اوروعدہ خلافی وبدعہدی کے گناہ سے بچنے کی ضرورت ہے۔

مولانا خالد سیف الله ربانی
(بہ شکریہ اداریہ الفاروق)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں