امریکا کے ساتھ معاملات طے، طالبان نے قطر میں دفتر کھولنے کی تصدیق کردی

امریکا کے ساتھ معاملات طے، طالبان نے قطر میں دفتر کھولنے کی تصدیق کردی

چمن (جنگ نيوز) افغانستان میں جنگ بندی کے حوالے سے طالبان اور امریکا کے درمیان باضابطہ معاملات طے پا گئے ہیں جس کے بعد طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھولنے کی تصدیق کردی ہے ، ملا عمر نے طالبان سپریم کونسل سے مشاورت مکمل کرلی ،جبکہ طالبان کے چوٹی کے رہنما جلد گوانتانامو سے قطر پہنچ جائیں گے، معاملات میں افغان حکومت نظراندازکیا گیا جبکہ پاکستان کا کردار بھی واضح نہیں۔ دفتر کھولنے کے بعد طالبان رہنما براہ راست غیرملکی طاقتوں سے مذاکرات کا روٹ میپ تیار کریں گے۔ علاوہ ازیں طالبان رہنما نے کہا ہے کہ ہم نے افغانستان میں اپنی طاقت کا لوہا منوالیا۔
تفصیلات کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کے دس سال بعد پہلی بار سیاسی حالات تاریخ کے اہم ترین موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں پہلی مرتبہ امریکا اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں برسرپیکار ملا عمر کے زیرانتظام طالبان تحریک نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پالیسی کو ایک نئی منزل کی طرف گامزن کر دیا ہے، طالبان ذرائع نے جنگ کو اس بات کی تصدیق کرا دی ہے کہ افغانستان میں امن اور افغان عوام کی خواہش کے مطابق اسلامی فلاحی مملکت کے قیام کے لئے طالبان اور امریکا کے درمیان باضابطہ معاہدہ طے پا گیا ہے جس میں شرائط و ضوابط بھی طے کرلئے گئے ہیں، امریکا کو پیش کیے گئے طالبان مطالبات پر عمل درآمد کی صورت میں افغانستان میں پہلی مرتبہ جنگ بندی کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں.
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ پچھلے دو برسوں کے دوران غیررسمی طالبان امریکا کے درمیان مختلف اوقات میں مذاکرات کے نتیجے میں بعض وسیع البنیاد طالبان رہنما بالخصوص اسلام آباد میں سابق طالبان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف اور ملا عمر کے سابق ترجمان طیب آغا نے اہم رول ادا کیا، قطر میں طالبان سیاسی دفتر کھولنے سے قبل طالبان سربراہ ملا محمد عمر نے طالبان سپریم کونسل کے ساتھ طویل مشاورت مکمل کرلی.
منگل کے روز طالبان اسلامی امارت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ”جنگ“ کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ملک کے موجودہ حالات جو پچھلے دس سال پہلے رونما ہوئے تھے، یہ دو فریقین کا مسئلہ تھا جس میں ایک طالبان اور دوسرا امریکا اور ان کے غیرملکی اتحادی تھے جبکہ طالبان اسلامی امارت کا پہلے دن سے یہ پالیسی تھی کہ افغانستان کا قبضہ ختم کیا جائے اور افغان عوام کی خواہش کے مطابق ایک ایسا اسلامی فلاحی حکومت کا قیام عمل میں آ جائے جو کسی اور ملک کے لیے ضرر رساں ثابت نہ ہو، طالبان نے اس دوران وقتاً فوقتاً غیرملکی طاقتوں کے سامنے اپنا یہ موقف پیش کرتے ہوئے اور اسی پر ہی اصرار کرتے رہے کہ اگر واقعی امریکا زور طاقت کے ذریعے افغان عوام کو اپنے تابع بنا دے ہرگز ممکن نہیں لہٰذا اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ افغانستان میں طالبان موجودیت کے ساتھ ساتھ غیرملکی طاقتوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے قیام کے لیے کسی غیرملک میں طالبان کا سیاسی دفتر ہو اور اس سلسلے میں طالبان تحریک نے قطر سمیت دیگر متعلقہ ممالک کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے جبکہ اس کے لیے گوانتانامو سے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے بھی افہام و تفہیم ہو چکی ہے.
طالبان ترجمان نے مزید کچھ بتانے سے گریز کیا جبکہ طالبان رہبری شوریٰ کے ذرائع نے جنگ کو بتایا کہ طالبان کے پانچ چوٹی کے رہنما سابق طالبان چیف آف آرمی اسٹاف ملا فاضل، سابق گورنر مزار شریف ملا نور الدین نوری، سابق گورنر ہرات خیراللہ فرا، ملا حسن ترابی اور ملا عبداللہ کو جلد گوانتانامو جیل سے رہا کر کے قطر بھیجے جائیں گے جہاں وہ طیب آغا کی سربراہی میں 6/ رکنی کمیٹی اپنے سیاسی دفتر کو فعال بنا کر امریکا سے براہ راست بات چیت کر کے افغان مسئلے کے مستقل حل کا روٹ میپ تیار کرے گا۔
دریں اثناء طالبان کے ساتھ اس تاریخی معاہدے اور روٹ میپ کی تیاری میں افغان حکومت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں ان تمام معاملات کے ابتدائی مرحلے میں حکومت پاکستان کا کوئی رول واضح نہیں کیا جاسکا ہے، سخت گیر موقف رکھنے والے طالبان رہنماؤں کا موقف ہے کہ پاکستان کے بغیر طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات اور اس کے نتائج پر عملدرآمد نا ممکن ہے، ان کا کہنا ہے کہ کرزئی حکومت بے اختیار ہے ان سے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا جبکہ طالبان نے اسلامی جذبے کے بل بوتے پر افغانستان میں طاقت کا لوہا منوا لیا ہے اور امریکا کو اب طاقت نہیں بات چیت کر کے مستقل حل کے لیے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں