کیا میڈیا انصاف سے کام لے رہا ہے؟؟؟

کیا میڈیا انصاف سے کام لے رہا ہے؟؟؟

پاکستان میں میڈیا کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے بعد اس کو ریاست کے چوتھے ستوں کا درجہ دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کا کردار نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ اس نے جمہوریت کے قیام کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا آغاز 14اگست 2002 سے ہوا تھا ۔ ابتداءمیں اس نےبھی بالکل ویسی ہی غلطیاں کی تھی جیسے ایک نو مولود بچہ کرتاہےکیونکہ اس کوصحیح اور غلط کا اندازہ نہیں ہوتا ۔ بالکل اسی طرح الیکٹرانک میڈیا نے بھی ابتداءمیں اس قسم کی غلطیاں کی جو قابل معافی تھی۔
ہم نے میڈیا کا کردار چیف جسٹس کی بحالی کے موقع پر بھی دیکھا جو انتہائی شاندار تھا۔ پھر اس کے بعد جس آمر نے اس نومولود بچے کوبڑا کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا تھا اسی نے اسے زخمی کردیا اور 3نومبر 2007 کی ایمرجنسی لگا کر تمام چینلز پر پابندی عائد کردی۔ لیکن اس بچے نے بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے بغیر سہارے کے چلنا شروع کیا اور بہت جلد ہی یہ بغیر کسی سہارے کے ڈوڑنا شروع ہوگیا۔ لیکن جس طرح جب کوئی بچہ نیا نیا چلنا شروع ہوتا ہے تو والدین کو اس بات کا خطرہ ہمیشہ کھٹکتا ہے کہ یہ کہیں لڑکھرا نہ جائے اور کہیں اس کو موچ نہ آجائے اور اکثر اوقات ایسا ہوتا بھی ہے۔ بالکل یہ ماجرہ اس نئے دوڑنے والے میڈیا کے ساتھ بھی پیش آیا۔ جیسے ہی اس نے اپنے پیروں پر چلنا اور دوڑنا شروع کردیا تو پھر یہ تمام حدود و قیود سے خود ماورا سمجھنے لگا اور جو بہتر سمجھا اسے کرگزرنے کی ٹھان لی۔
اس آزادی کو معاشرے کے ایک سیکشن نے خوب سراہا جبکہ دوسرےسیکشن نے نہ صرف برامنایا بلکہ کسی حد تک رد بھی کردیا۔ سوال یہ نہیں کہ کس نے سراہا اور کس نے رد کیا بلکہ سوال تو یہ ہے کہ ایسی نوبت کیوں آئی کہ میڈیا کے بارے میں لوگوں کی رائے میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ اس سے تو شاید کوئی پاگل ہی انکاری ہوگا کہ وہ سچ کوسامنے نہ لایا جائے لیکن سچ کو کس طرح سامنے لایا جاتا ہے اس معاملے میں تو مخالفت ہوسکتی ہے۔
حالیہ دنوں میں جس طرح اس آزاد میڈیا نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا ہےتو گویا یہ تو ایک ایسا گورک دھندا لگنےلگا ہے کہ بس وہی دکھایا جائے گا جو بکے گا۔ یعنی میڈیا پر نشر ہونے کے لیے شاید اب صرف ایک معیار باقی رہ گیا ہے کہ کونسا ایونٹ زیادہ بکتا ہے جسے عام لفظوں میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کونسا ایونٹ ہے جس کو لوگ دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس کی بدولت آمدن میں اضافہ ہے۔ یہ بات بھی بالکل بجا ہے کہ کسی بھی چینل کو چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس کے لیے بے پنا ہ پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کیا صرف آمدن کے حصول کے لیے اپنا نظریہ کو بیچنا درست ہے؟؟؟
میڈیا نے اپنی آزادی کے وقت سے معاشرے میں انصاف کے لیے آواز بلند کی کیونکہ انصاف کے بغیر توکوئی بھی معاشرہ نہیں چل سکتا اور یہ ایک ناگزیر شہ ہے لیکن کیا میں یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب نہیں ہوں کے میڈیا اپنے شعبے میں کتنے انصاف سے کام لے رہا ہے۔ کیا کبھی اس نے کوئی معیار طے کیا ہے کہ اس کے چینلزپر کیا دکھانا چاہیے اور کیا نہیں۔ کسی اداکارہ کے یہاں بچے کی پیدائش کے معاملے ہوتو ہمارے میڈیا پل پل کی خبر دینے سے بھی نہیں چوکتا اس کے باوجود کہ جس ملک کی وہ اداکارہ ہے وہاں یہ خبر دینے پر پابندی تھی لیکن شاید ہمارا میڈیا توشاید شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ہے۔ پھر ہمارے ہی ملک کی اداکارہ نے برہنہ فوٹو شوٹ کروالیا تو پورا ہفتہ ہمارے میڈیا نے اس کو کوریج دی اور جس مقصد کے لیے اس نے سب کچھ کیا تھا ہم اس کے مقصد کو پورا کرنے میں برابر کے شریک بن گئے۔ اسی طرح ہمارے دشمن ملک میں بننے والے ہر “آئٹم سونگ” کو دکھانا تو جیسے ہمارے میڈیا کا لازمی جز بن چکا ہے چاہے وہ دیکھنے کے قابل ہو یا نہ ہو۔
یہ تمام وہ باتیں ہیں جو شاید ملک کے نظریہ سے برخلاف جارہی ہیں۔ ہم بات کرتے ہیں کہ ہمارامعاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے یعنی ایک وہ طبقہ جو خود کو سیکولر اور لبرل کہتا ہے اور دوسرا خود کو مذہبی کہتا ہے۔ لیکن کیا یہ بڑھاوا ہمارا میڈیا پیدا نہیں کررہا۔ گزشتہ ایک ماہ سے اس ملک میں جلسے اور جلوسوں کی بہار آئی ہوئی ہے اور یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے کہ تمام جماعتیں اپنے لوگوں کو متحرک کریں۔ لیکن اگر ہم ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو یہ ہمارا میڈیا ہی ہے جس نے ناانصافی کی انتہا کردی ہے۔ اگر میرے پاس کوئی ایسا آلہ ہوتا کہ میں یہ بیان کرسکوں کے اس میڈیا نے کس بے دردی کے ساتھ تمام مذہبی جماعتوں کو یکسر نظر انداز کیا ہے تو میں یہ ضرور کرتا۔ یہ تمام ایسی باتیں ہیں جو معاشرے میں غم و غصے کو جنم دیتی ہے۔ کل بروز 25دسمبر کو جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہیں کہ میڈیا نے ایک جلسے کو 24گھنٹے سے زیادہ وقت دیا جبکہ دوسرے جلسے کو شاید ہی 24منٹ دیے ہوں۔ اس کی وجہ وہی غورک دھندا ہے کہ جس کی خاطر ہم نے تمام حدوں کو پار کردیا ہے۔
اس کے علاوہ 25دسمبر بابائے وقوم کا یوم ولادت تھا لیکن ہم اگر تمام نشریات کا جائزہ لیں تو میڈیا نے یوم ولادت کے مقابلے میں کرسمس کے حوالے سے ہونے والے پروگرامات کو زیادہ کوریج دی ہے۔ شاید یہ کچھ لوگوں کی نظر میں بالکل ہی غیر اہم بات ہو لیکن درحقیقت یہ ایک ایسی منفی تبدیلی ہے کہ اس کو فوراً نہ روکا گیا تو بہت خطرناک نتائج بھی دے سکتا ہے۔
اس لیے میں میڈیا سے متوجہ ہوکر یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ معاشرے میں انصاف کے خواہ ہیں تو برائے کرم اپنے معاملے میں بھی انصاف سے کام لیں اگر ہمارے دشمن ملک میں کوئی آئٹم سانگ بنتا ہے تو یہ ہم پر لازم نہیں ہے کہ ہم اس کو دکھائیں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ آپ کی اس ناانصافی نے سبق حاصل کرتے ہوئے دوسرے لوگ بھی اسی سفر پر گامزن ہوجائیں۔ جس کے منفی اثرات کا ہم سب شکار ہوسکتے ہیں۔

(بہ شکریہ ڈی نیوز ٹرائب)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں