عالم اسلام میں تبدیلیی کی لہر ’’حسینی تحریک‘‘سے متاثر ہے

عالم اسلام میں تبدیلیی کی لہر ’’حسینی تحریک‘‘سے متاثر ہے

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے خطبہ جمعہ کا آغاز سورت البقرہ کی آیات153 تا157 کی تلاوت سے کرتے ہوئے نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قیام کو انصاف کی فراہمی کیخاطر اور ظلم کیخلاف قرار دیا۔انہوں نے کہا مشرق وسطی میں اٹھنے والی تبدیلیوں کی منشا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قیام ہے جس نے آزادی کیلیے آوازاٹھائی۔
انہوں نے موضوع کے حوالے سے مزیدکہا: یہ دنیا دارالامتحان ہے؛ اللہ تعالی ہر شخص کو اس کے مقام کے مطابق امتحان کرتا ہے اور اسے آزمائشوں سے دوچار کرتاہے۔ کسی کو مالداری سے کسی کو غربت وناداری سے، بعض کو صحت سے بعض کو بیماری سے۔ انسان عمر کے ہر رتبے پر خدا کی آزمائش میں پڑسکتاہے۔
بعض انبیاء علیہم السلام کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا: مثلا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتش نمرودی سے آزمایاگیا جو اس کیلیے ٹھنڈی بن گئی، اسی طرح انہیں اپنے جگرگوشہ اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے بھی امتحان میں ڈالاگیا جس سے وہ سرخرو ہوکر نکلے۔ مغرور و متکبر فرعون حضرت موسی علیہ السلام کیلیے آزمائش کا ساماں تھا، جبکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابولہب، مشرکین مکہ اور مشہورمنافق عبداللہ بن ابی سمیت دیگر مسائل وافراد سے امتحان کیاگیا۔ مشرکین مکہ یہاں تک آگے بڑھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کیلیے کمربستہ ہوئے، پھر اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم دیا اور اس طرح انہیں آزمائش کیاگیا۔
ممتاز سنی عالم دین نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی مختلف مقامات اور محاذوں پر فتنہ و آزمائش میں ڈالا۔ انبیائے کرام اور صحابہ سب آزمائشوں میں کامیاب ہوکر سرخرو ہوئے۔ اللہ تعالی ان کے نقش قدم پرچلنے والوں کو بھی امتحان فرماتاہے۔ اللہ نیک بندے اس کی آزمائشوں سے بری نہیں ہوتے۔اہل ایمان کو ہر امتحان میں صبر و محنت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اللہ کے مومن بندے کسی بھی ممکنہ آزمائش کیلیے تیار رہیں۔
قیام حسین اور صحرائے کربلا میں ان کے المناک سانحہ شہادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: حضرت حسین رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہونے کے علاوہ علی وفاطمہ رضی اللہ عنہما کے تربیت یافتہ فرزند تھے۔ اسی وجہ سے زندگی میں ہرآزمائش کا مقابلہ کرکے آپ رض کامیاب ہوئے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی اس خاندان کے تربیت یافتہ تھے، چنانچہ جب آپ خلیفہ بنے تو مسلم دنیا دو حصوں میں تقسیم تھی، حضرت حسن نے فراست و فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا اور خلافت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آئی۔ حضرت معاویہ کے بعد یزید خلیفہ بن گیا جس نے راہ خلافت سے انحراف کیا۔ یزید نے تجربہ کار اور مخلص والیوں اور گورنرز کو برطرف کرکے نالائق گورنروں کو متعین کیا۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے مستقبل کو خطرے میں دیکھا اور اپنے والد اور ان کے دوست صحابہ کرام کی میراث کی پامالی کا خطرہ بڑھ گیا تو قیام پر مجبور ہوئے۔جب آپ نے بیعت لینے کی مہم چلائی تو سب سے پہلے اہل کوفہ نے حامی بھرلی مگر جب حسین رض وہاں پہنچے توکوفیوں نے بے وفائی کامظاہرہ کرتے ہوئے قاتلین اہل بیت کی صف میں شامل ہوئے۔
انہوں نے واقعہ کربلا کو دلخراش سانحہ قرار دیتے ہوئے مزیدکہا: مسلمان نما لوگ جنہوں نے پیسہ اور طاقت حاصل کیاتھا حضرت حسین اور اس کے ساتھیوں کو دمِ تیغ سے گزارا۔ اللہ نے ان کے قاتلوں کو سخت عذاب سے دوچار کرکے ہلاک کردیا۔ یزید کی حکومت چارسال بعد ختم ہوگئی اور وہ خود جان کاہ بیماری میں مبتلا ہوا جو اس کی موت کا باعث بنا۔

حضرت امام حسین کا تعلق پورے عالم اسلام سے ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطبہ جمعہ کے دوران تاکید کرتے ہوئے کہا: حضرت حسین کا تعلق کسی خاص گروہ یا مسلک سے نہیں ہے بلکہ وہ تمام مسلمانوں کے یہاں قابل احترام و اتباع ہیں۔ تمام مسلم فرقے انہیں قابل قدرصحابی اور نواسہ رسول مانتے ہیں۔ آپ سب کے نزدیک اسوہ ہیں۔ مسلمانوں کو انہوں نے یہ سبق دیاہے کہ جب حکام آمریت پر اترآئیں اور ظلم و غارتگری کا بازار گرم کریں جس سے اسلامی اقدار خطرے میں پڑجائیں تو انقلاب کیلیے اٹھنا چاہیے۔
حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: مسلمان حضرت امام حسین کی تحریک، جو درحقیقت احیائے خلافت کیلیے تھی، سے استدلال کرتے ہیں کہ جو حکمران خود کو مسلمان کہلاتے ہیں مگر ان کارویہ اسلامی تعلیمات کیخلاف ہے اور وہ لوگوں پر بلاوجہ ظلم کرتے ہیں تو ان کیخلاف بغاوت جائز ہے۔ آج کل مشرق وسطی میں ایسی ہی صورتحال ہے، مسلم قوموں نے جابر وفاسق حکمرانوں کیخلاف مظاہرہ کیا اور بالاخر انہیں تخت سے تختہ تک پہنچایا۔ یہ حکمران حکومت کو وراثت سمجھتے ہیں، مخالف کی بات سننے کیلیے تیار نہیں ہیں۔
خطیب اہل سنت نے مزیدکہا: اہل بیت نبوی اہل سنت والجماعت کے نزدیک انتہائی قابل قدر ہیں، ان کی جگہ ہمارے دلوں میں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں سنی مسلمان اہل بیت سے محبت نہیں کرتے، یہ سراسر غلط خیال ہے۔ اہل سنت کی فقہ اور عقیدے میں کسی بھی شخص کیلیے تین دن سے زائد سوگ نہیں منائی جاتی۔ ہمارے نزدیک عزاداری نہیں ہے، چونکہ صحابہ کرام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی شخص کیلیے ایسا نہیں کیاہے، نہ ہی کسی شخص کیلیے برسی منائی گئی۔ ہم ان کی اتباع کرتے ہیں۔ کالہ کپڑا نہ پہننے اور عزا بپا نہ کرنے کی وجہ صرف یہی ہے۔
آخرمیں مولانا عبدالحمید نے حاضرین کو مصیبت کے وقت نماز وصبر کی دعوت دیتے ہوئے تاسوعا و عاشورا کے دنوں میں روزہ رکھنے اور ذکر وتلاوت کی ترغیب دی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں