ترکی: شامی حکومت کے اثاثے منجمد، اقتصادی پابندیاں عاید

ترکی: شامی حکومت کے اثاثے منجمد، اقتصادی پابندیاں عاید

انقرہ/دبئی(العربیہ ڈاٹ نیٹ، ایجنسیاں) ترکی نے شام کے ساتھ ہر قسم کے مالی لین دین پر پابندی عاید کردی ہے اور شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے شام کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان بدھ کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ”ترکی شام کو کے ہتھیاروں اور فوجی آلات کی ترسیل بھی روک دے گا”۔ان کے بہ قول ان اقدامات کا مقصد شامی حکومت کو جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی کارروائیاں ختم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکی اور شام کے درمیان دوطرفہ تزویراتی تعاون سے متعلق معاہدہ بھی معطل کیا جا رہا ہے اور اس کو شام میں بشار الاسد کی رخصتی اور نئی حکومت کے قیام کے بعد ہی بحال کیا جائے گا۔اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے متعدد وزراء ہر سال دوطرفہ تعاون کے قابل عمل معاہدوں کا جائزہ لیتے اور ان پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کرتے تھے۔
ترک وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ اسد حکومت شاہراہ کے آخری سرے تک پہنچ چکی ہے اور ترکی کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کرے گا جس سے شامی عوام کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ ترکی شامی صدر کے اقدامات کے مطابق مزید اقدامات کرے گا۔
احمد داؤد اوغلو نے گذشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ترکی شام میں فوجی مداخلت کے آپشن پر غور نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ کسی بھی منظرنامے کے لیے تیار ہے۔ٹیلی ویژن چینل کنال 24کے ساتھ انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ کوئی بھی حکومت جب اپنے ہی عوام کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے تو پھر اس کے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔
انھوں نے کہا کہ عالمی برادری شام میں تشدد سے بچنے کے لیے ہزاروں افراد کی محفوظ مقامات کی جانب منتقلی کے پیش نظر ایک بفر زون کے قیام کا فیصلہ کرسکتی ہے۔شامی حکومت کو اپنے ہی عوام کے ساتھ امن کے قیام کے لیے کوئی راستہ نکالنا ہوگا اور اس کے پاس ابھی موقع ہے کہ وہ اپنے ہاں بین الاقوامی مبصرین کو آنے کی اجازت دے۔
احمد داٶد اوغلوکا کہنا تھا کہ ”اگر جبروتشدد کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو ترکی کسی بھی منظرنامے کے لیے تیار ہے۔ہمیں توقع ہے کہ شام میں تشدد کی روک تھام کے لیے فوجی مداخلت ناگزیر نہیں ہوگی”۔
واضح رہے کہ اتوار کو عرب لیگ نے شام کے خلاف اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔ ان کے تحت دمشق سے عرب شہروں کے لیے تجارتی پروازوں اور اس کے مرکزی بنک کے ساتھ لین دین معطل کر دیا گیا ہے۔اس سے ایک روز پہلے یورپی یونین نے شام کے خلاف اضافی پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کیا تھا۔امریکا اور یورپی یونین نے پہلے بھی جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کارروائیوں کی پاداش میں شام کے اعلیٰ حکومتی عہدے داروں اور اس کے تیل کے شعبے پر پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔

فوج کی فائرنگ سے 14 شہری ہلاک، دمشق میں سرچ آپریشن
حکومت مخالف باغیوں کی قائم کردہ جنرل انقلاب کونسل نے بتایا ہے کہ دارالحکومت دمشق میں گذشتہ تین روز سے فوج کا سرچ آپریشن اور فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ تین روز سے جاری فوجی کارروائیوں میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے ہیں۔
انقلابی کونسل کی اطلاعات کے مطابق منگل کے روز دمشق میں سرچ آپریشن کے دوران فوج کی فائرنگ سے چھے افراد ہلاک ہو گئے۔ انقلابیوں کے گڑھ سمجھے جانے والے شہر حمص میں بھی بشار الاسد کے وفادار فوجیوں نے ٹینکوں سے گولہ باری کی جس کے نتیجے میں پانچ افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ علاوہ ازیں حماۃ اور ادلب میں ایک ایک شخص کے مارے جانے کی خبریں ملی ہیں۔
اُدھر شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پرنگاہ رکھنے والے غیر مُلکی ادارے کے ایک عہدے دارنے اطلاع دی ہے کہ “درعا” شہر کے دو قصبوں”عتمان” اور “داعل” میں ٹینکوں اور بھاری توپخانے سے گولہ باری کی گئی۔ فائرنگ کے دوران زور داردھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق فوج کی بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی بڑی تعداد کو “داعل” کی جانب جاتے دیکھا گیا ہے۔

انسانی بحران گھمبیر تر
شامی انقلاب کمیٹی کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق دمشق کے نواحی علاقے رنکوس میں اتوارکے روز سے فوج کا سرچ آپریشن اورشہریوں پُرتشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ تین روز سے رنکوس میں فوج کی فائرنگ سے22 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہیں اورکئی گرفتار کرلیے گئے ہیں۔
رنکوس میں فوجی کارروائیوں کے باعث تمام مواصلاتی رابطے، بجلی، ٹیلیفون اورانٹرنیٹ رابطے منقطع ہیں۔ فوج نے منگل کے روز علی الصباح رنکوس کے مضافاتی مقامات”عسال الورد” اور “وحوش عرب”کا محاصرہ کرکے گھر گھر تلاشی کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ فوج کا محاصرہ بدستور جاری ہے۔ اس دوران دسیوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
رنکوس سے انسانی حقوق کے ایک مندوب نے اطلاع دی ہے کہ مقامی آبادی کو اپنے متقول شہریوں کی تدفین میں سنگین نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ فوج نے کریک ڈاؤن کے دوران غیر علانیہ کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔
رنکوس سے انقلابی کارکنوں نے “العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو ٹیلی فون پر بتایا کہ فوج نے آپریشن کے دوران آتش گیر گولے فائر کر کے کئی مکانات، دُکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ہے۔ عسال الورد میں فوج کی گولہ باری سے ایک مسجد بھی شہید ہو گئی ہے۔
ایک عینی شاہدنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر”العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو بتایا کہ شہرکی بیس ہزار آبادی فوجی محاصرے کے باعث سنگین نوعیت کے انسانی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ شہرمیں ادویہ کی قلت ہے۔ فوجی مکانوں کی چھتوں پرموجود ہیں اورشہریوں کو گھروں کے اندر بند کردیا گیا ہے۔ شہرکے باہرسے زخمیوں کواسپتال لے جانے لیے ایمبولینسوں کا داخلہ بھی روک دیا گیا ہے۔
عینی شاہد نے بتایا کہ سردی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہےاور رنکوس میں درجہ حراست صفرتک گرچکا ہے۔ گیس اوربجلی کی بندش کے باعث مقامی آبادی کی مشکلات مزید دو چند ہوگئی ہیں۔
قبل ازیں رنکوس میں باغی فوج کے ترجمان نے “العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو بتایا تھا کہ ان کے زیرانتظام ” معاویہ اور “ابوعبیدہ” بریگیڈ نے بشار الاسد کے وفادارفوجیوں اورکرائے کے قاتلوں کا حملہ پسپا کردیا ہے۔
جوابی کارروائی میں سرکاری فوج کے دسیوں فوجی ہلاک اور زخمی کر دیے گئے ہیں۔ کارروائی میں چھ ٹینک اور دو آرمڈ وہیکل تباہ ہو گئے۔ اس دوران سرکاری فوج کی فائرنگ سے باغیوں کے سات فوجی بھی مارے گئے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں