شام:جھڑپوں میں 23 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 50 افراد ہلاک

شام:جھڑپوں میں 23 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 50 افراد ہلاک

رستن(خبرايجنسياں) شام میں جھڑپوں کے دوران 23 سکیورٹی اہلکار اور 15 باغی فوجیوں سمیت 50 افراد ہلاک ہو گئے۔
شام کے مختلف شہروں میں سکیورٹی اہلکاروں اور باغی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔جس میں 23 سکیورٹی اہلکار ، 15 باغی فوجی اور 12 شہری ہلاک ہو گئے۔زیادہ تر ہلاکتیں شام کے صوبے حمص میں ہوئیں۔
شام کے انسانی حقوق کے گروپ کے مطابق حمص میں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 12 افراد ہلاک ہوئے جبکہ صوبے حمص کے شہر رستن میں شام کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں 15 باغی فوجی ہلاک ہوئے۔
دوسری جانب حلہ میں باغی فوج کے ساتھ جھڑپ میں 11 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔حماہ شہر میں بھی باغیوں کے حملے میں 5 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ حماہ اور تدمر کے درمیاں ایک شاہرہ پر گھات لگائے مسلح افراد کے حملے میں 7 فوجی پائلٹوں کو ہلاک کیا گیا۔
فری سیریا آرمی نامی باغی گروپ نے فوجی پائلٹوں کے بس پر حملے کی زمہ داری قبول کر لی ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق شام میں مظاہروں کے شروعات سے اب تک 3 ہزار 5 سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں جس میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

عرب لیگ:شام کو مبصر مشن پروٹوکول پر دستخط کے لیے ایک دن کی مہلت
دوسری جانب، عرب لیگ نے شام سے کہا ہے کہ وہ تنظیم کے مبصرین کو ملک میں صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے آنے کی اجازت دینے سے متعلق پروٹوکول پرکل جمعہ تک دستخط کردے۔ دوسری صورت میں اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عاید کردی جائیں گی جبکہ آزاد شامی فوج نے اپنے ملک میں تزویراتی اہمیت کے حامل اہداف پر فضائی حملوں کا مطالبہ کیا ہے۔
قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس کے بعد مصر کے نمائندے عفیفی عبدالوہاب نے صحافیوں کو بتایا کہ ”شام پرعاید کی جانے والی پابندیوں میں تجارتی پروازوں اور اس کے مرکزی بنک کے ساتھ لین دین کی معطلی بھی شامل ہے”۔
انھوں نے کہا کہ کل جمعہ تک شام کو پروٹوکول پر دستخط کرنا ہوں گے۔اگر وہ اس پر دستخط نہیں کرتا تو وزراء کی اقتصادی اور سماجی کونسل کا ہفتے کے روز اجلاس ہوگا جس میں شام پراقتصادی پابندیاں عاید کرنے پر غور کیا جائے گا”۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ”اگر شام مبصرین کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دینے سے انکاری رہتا ہے تو اتوار کو تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوگا جس میں مجوزہ پابندیوں کا جائزہ لیا جائے گا”۔
عرب لیگ کے اجلاس میں شریک ایک اور سفارتی نمائندے کا کہنا تھا کہ بائیس رکن ممالک پر مشتمل تنظیم شامی حکام پر سفری پابندیوں کے علاوہ عرب ممالک میں اسد حکومت کے فنڈز منجمد کردے گی اور شام میں عرب منصوبوں کو بھی روک دیا جائے گا۔اس نمائندے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ شام پر پابندیوں کے حوالے سے مختلف تجاویز پر غور کیا جارہا ہے۔
یادرہے کہ امریکا اور یورپی یونین نے پہلے ہی جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کارروائیوں کی پاداش میں شام کے اعلیٰ حکومتی عہدے داروں اور اس کے تیل کے شعبے پرپابندیاں عاید کررکھی ہیں۔یورپی یونین کے ایک عہدے دار کا بدھ کو کہنا تھا کہ شام کے خلاف مزید نئی پابندیاں عاید کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔
درایں اثناء آزاد شامی فوج کے سربراہ کرنل ریاض الاسد نے صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تزویراتی اہمیت کے حامل اہداف پر غیر ملکی فضائی حملوں کا مطالبہ کیا ہے۔
ترکی کے سرحدی علاقے میں مقیم کرنل اسد نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ٹیلی فون کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم غیرملکی فوجیوں کے ملک میں داخلے کے حق میں نہیں ہیں ،جیسا کہ عراق کے معاملے میں ہوا تھا۔اس کے بجائے ہم عالمی برادری کی جانب سے لاجسٹیکل اسپورٹ چاہتے ہیں”۔
انھوں نے کہا کہ ”ہم عالمی تحفظ چاہتے ہیں،نوفلائی زون کا قیام چاہتے ہیں اور شامی حکومت کے لیے اہمیت کے حامل بعض اہداف پر حملے چاہتے ہیں”۔دوسری جانب پیرس میں مقیم شامی حزب اختلاف کے ایک اور لیڈر نے گذشتہ روز فرانسیسی وزیرخارجہ کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا تھا کہ وہ باغی فوجیوں کے صدر اسد کی فورسز کے خلاف حملوں کے حق میں نہیں ہیں۔
پیرس میں شامی قومی کونسل (ایس این سی) کے لیڈر بُرہان غلیون نے فرانسیسی وزیرخارجہ کے ساتھ بدھ کو ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ان کی کونسل منحرف فوجیوں پر مشتمل آزاد شامی فوج کی ملک کی کہیں منظم فورسز کے ساتھ براہ راست لڑائی کے حق میں نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ فوج سرکاری ملازمت کو خیرباد کہنے والے اہلکاروں اور پُرامن مظاہرین کو تحفظ مہیا کرے اور فوج کے خلاف جارحانہ کارروائیاں نہ کرے”۔
فرانس نے گذشتہ روز شام میں حکومت مخالفین کے تحفظ کے لیے انسانی کوریڈور کے قیام کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ فرانسیسی وزیرخارجہ الین جوپے نے کہا کہ وہ برسلز میں یورپی یونین کے ساتھ شامی شہریوں کے تحفظ کے لیے راستوں کو محفوظ بنانے کی تجویز پر تبادلہ خیال کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ”اگر شام میں آبادی کے تحفظ کی خاطر کوئی الگ تھلگ محفوظ علاقے قائم کیے جاسکتے ہیں،تواس تجویز کا جائزہ لیا جانا چاہیے”۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں