معمرقذافی کے انٹلیجنس چیف عبداللہ السنوسی گرفتار

معمرقذافی کے انٹلیجنس چیف عبداللہ السنوسی گرفتار

طرالبلس(العربیہ) طرابلس سے “العربیہ” کی نامہ نگار نے اپنے مراسلے میں بتایا ہے کہ اتوار کے روز انقلابیوں نے معمر القذافی دور کے انٹلیجنس چیف کو گرفتار کر لیا ہے۔ انہیں لیبیا کے جنوبی علاقے سبھا کے علاقے القیرہ سے حراست میں لیا گیا۔
السنوسی کی گرفتاری، معمر القذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی کی نیجر فرار کی کوشش میں گرفتاری کی اطلاع کے ایک روز بعد عمل میں آئی ہے۔ عبداللہ السنوسی، کرنل قذافی کی بیوہ صفیہ فرکاش کی بہنوئی تھے۔ انہیں لیبیا کے سیکیورٹی اداروں میں کرنل قذافی کے آنکھ، کان اور دایاں ہاتھ تصور کیا جاتا تھا۔ ان کے بارے میں یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ وہ امسال سترہ ستمبر کو ملک میں قذافی کے اقتدار خاتمے کے مطالبے پر شروع ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کی منصوبہ بندی کرنے میں ید طولی رکھتے تھے۔
عبداللہ السنوسی کا نام لیبیا کے مضبوط سیکیورٹی آپریٹس میں شامل تھا، اس ادارے کو انتہائی حساس نوعیت کے معاملات سپرد کئے جاتے تھے۔ “الکتیبہ” کے نام سے موسوم محکمے کا کام قذافی کی حفاظت تھا۔ انقلاب کے بعد اس محکمے کا انتہائی بھیانک چہرہ لیبی عوام کے سامنے آیا، اس کے عہدیداروں اور کارکنوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کے اندر و باہر متعدد حکومت مخالف افراد کو قتل کیا۔
السنوسی پر دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے جون 1996ء کو طرابلس کی ابو سلیم جیل میں قتل عام کرایا، جس میں بارہ سو قیدی ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں کی بڑی تعداد سیاسی قیدیوں پر مشتمل تھی کہ جو جیل کی حالت زار کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
ان کے مظاہرے کو کچلنے کے لئے مبینہ طور پر السنوسی کے حکم پر جیل انتظامیہ نے فائرنگ کر دی۔
سن 80 کی دہائی میں عبداللہ السنوسی داخلی سلامتی کے محکمے کے نگران تھے۔ اپنی مدت ملازمت میں انہوں نے دسیوں حکومت مخالف سیاستدانوں کو اغواء کرایا، جس میں بڑی تعداد کے بارے میں تاحال معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔
گرفتار لیبی انٹلیجنس چیف مغربی ملکوں کے سراغرسانی کے محکموں میں کافی مقبول تھے۔ انہیں فرانسیسی عدالت نے سنہ 1989ء میں یوٹا ایئر لائن کے جہاز کو بم دھماکے سے تباہ کرنے کی پاداش میں عمر قید سنائی تھی۔ اس حادثے میں 170 افراد لقمہ اجل بنے۔ اس واقعے کے بعد السنوسی کی گرفتاری کے لئے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں