شام میں شہری ہلاکتیں بند کی جائیں:عرب لیگ

شام میں شہری ہلاکتیں بند کی جائیں:عرب لیگ

عرب لیگ نے شام میں حکومت مخالف مظاہروں میں شامل افراد کی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے صدر بشار الاسد کو ایک ’ہنگامی پیغام‘ بھیجا ہے۔
عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے شامی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے۔
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ شام میں جمعہ کو مظاہروں کے دوران سینتیس شہری مارے گئے ہیں۔
یہ ہلاکتیں حمص اور حما میں مظاہروں کے دوران ہوئی ہیں اور مظاہرین نے شام پر نو فلائی زون کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔
شام میں رواں برس مارچ میں حکومت مخالف مظاہروں کے آغاز سے اب تک تین ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
صدر بشار الاسد کی حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف تحریک کو مسلح گروہوں اور غیر ملکی شدت پسندوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور یہ ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
شام میں غیرملکی صحافیوں کو آزادانہ سرگرمیوں کی اجازت نہیں اس لیے ان الزامات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات بھی ممکن نہیں ہیں۔
شام کے معاملے پر قائم کی گئی عرب لیگ کی کمیٹی نے جمعہ کو جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ وہ کمیٹی کے ارکان اتوار کو قطر میں شامی حکام سے ملیں گے تاکہ اس بحران کے خاتمے کے لیے سنجیدہ بات چیت ہو سکے۔
عرب وزرائے خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے بدھ کو شامی صدر سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کی ہے۔
ادھر شام میں حزب اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جمعہ کو ہی نمازِ جمعہ کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں نیٹو سے شام پر نو فلائی زون قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مظاہروں میں شامل افراد نعرے لگا رہے تھے کہ ’یا خدا ہم شام کے اوپر نو فلائی زون چاہتے ہیں‘۔ اس کے علاوہ مظاہرین نے اس مطالبے کے بارے میں کتبے اور بینر بھی اٹھا رکھے تھے۔
شام میں جمعہ کو مظاہرین پر تشدد کے خدشے کے باوجود مختلف علاقوں میں ایک سو ستر مظاہرے ہوئے ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک اسی سالہ بزرگ اور ایک نوجوان لڑکا بھی شامل ہے۔
مظاہرین نے احتجاج کے دوران نیٹو سے مطالبہ کیا کہ انھیں لیبیا کی طرز پر بین الاقوامی تحفظ فراہم کیا جائے۔ واضح رہے لیبیا میں نیٹو کے جنگی جہازوں نے لیبیا کے رہنما کرنل قذافی کی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔.


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں