حضرت شیخ الاسلام: مشکلات و بحرانوں کاواحد علاج؛ اصلاح اعمال و اخلاق

حضرت شیخ الاسلام: مشکلات و بحرانوں کاواحد علاج؛ اصلاح اعمال و اخلاق

خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے جمعہ رفتہ میں جامع مسجد مکی زاہدان کے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے تزکیہ نفس، اصلاح اخلاق و اعمال کی اہمیت اور نیک اعمال کے انفرادی و اجتماعی زندگی میں مسائل و بحرانوں سے نجات پر مثبت اثرات کے حوالے سے گفتگو فرمائی۔
اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: ’’یا ایہاالذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ و لاتموتن الا و انتم مسلمون‘‘ سے کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: اپنے آپ کو مسلمان کہلانا یا شیخ و عالم کے القاب سے یاد کرانا کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں اسلام کی تمام تعلیمات مکمل طور پر اپنی زندگی میں نافذ کرنا چاہیے۔ ہمیں حضرات ابراہیم و اسماعیل علیہماالسلام کی پیروی کرنی چاہیے جنہوں نے تعمیرکعبہ کے بعد دعاکرتے ہوئے کہا تھا: ’’ربنا واجعلنا مسلمین لک‘‘۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: مدارس و تعلیمی مراکز میں وقت گزارنا زیادہ مشکل نہیں، البتہ پوری طرح اپنے آپ کو احکام الہی کے حوالے کرنا مشکل ہے۔ حرمین کی زیارت اور سفرحج پر جانا آسان ہے لیکن قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنا ایک چیلنج ہے۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کتب حدیث میں موجود احادیث مبارکہ سے استنباط کرتے ہوئے مزید گویاہوئے: ہم مسلمانوں نے جب کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ و محمدرسول اللہ‘‘ پڑھ لیا تو اس کا مطلب ہے ہم نے اللہ رب العزت کو ’احکم الحاکمین‘ تسلیم کیاہے۔ راہِ نجات صرف قرآن وسنت کی اتباع ہے۔ احادیث کیمطابق اگر موسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب عیسی علیہ السلام قربِ قیامت نزول فرمائیں گے تو قرآن وسنت کے پیروکار بنیں گے۔ ہدایت کا راستہ یہی ہے اس کے علاوہ سب شیطان کی راہیں ہیں جو بندے کو جہنم تک لیجائیں گی۔
ممتاز سنی عالم دین نے مزید کہا: کسی بھی مسلمان کا سب سے بڑا اہتمام اسلامی شریعت کی مکمل پیروی ہونی چاہیے۔ ہر مسلمان شرعی منہیات سے دوری اختیار کرے اور اپنے تمام اعضا و جوارح کو گناہوں سے محفوظ رکھے۔ ایسی مجالس سے دوری کریں جہاں گناہ اور معصیت کا ارتکاب ہوتاہے، اگر لوگوں کو گناہ سے نہ روک سکے تو احتجاجا اس مجلس سے اٹھ جائیں جیسا کہ سیاسی لوگ جب اپنے خلاف کوئی بات سنتے ہیں تو واک آؤٹ کرتے ہیں۔
خطیب اہل سنت نے ایسے لوگوں پر شدید تنقید کی جو شادی کی تقریبات میں میوزک اور دیگر ممنوعہ آلات کو لاتے ہیں۔ انہوں نے کہا شادی کی تقریبوں کو موسیقی سے گرم کرنا اسلام کے خلاف ہے، میوزک سننا دل میں نفاق لاتاہے۔ شادی کی تقریب میں قرآن کی تلاوت ہونی چاہیے، بعض لوگ سمجھتے ہیں قرآن پاک کی تلاوت تعزیت و عزا کی مجالس کیلیے خاص ہے حالانکہ صرف زندہ لوگ قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ جس شادی کی تقریب میں قرآن پاک کی تلاوت ہو، دینی تقریر اور نظم شامل ہو تو خیر وبرکت اس تقریب اور شادی میں آئے گی۔
حضرت شیخ الاسلام نے تاکید کی خوشی اور غم دونوں حالتوں میں گناہوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بعض لوگ شادی میں دکھاوے سے کام لیتے ہیں، کچھ لوگ دعوت ولیمہ میں اسراف کرتے ہیں اور بچاہوا کھانا کچرادانوں میں ڈالتے ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک کام ہے۔ قرآن وسنت ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں نافذ ہوں تو ہر مشکل کا حل نکل آئے گا۔ ہر حالت میں نیک اعمال کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ سخت حالات میں نماز پڑھ کردعا کرنی چاہیے۔ آج کل مسلمانوں کا یقین مالک سے زیادہ اسباب پر ہے حالانکہ اسباب کو استعمال کرکے رب الاسباب پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: حقیقی مسلمان ہر حالت میں اللہ کی طرف رجوع کرتاہے اور نماز سے متوسل ہوکر اپنی مشکلات حل کرتاہے۔ یہ قرآن کی تعلیم ہے: استعینوا بالصبر والصلاۃ۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و عادت مبارکہ بھی یہی تھی۔ اس لیے بحرانوں سے نجات کیلیے تقوا و پرہیزگاری اختیار کرکے حقوق اللہ وحقوق العباد کی مراعات کرنی چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں