القاعدہ کے لیڈر انورالعولقی سی آئی اے کے ڈرون حملے میں ہلاک

القاعدہ کے لیڈر انورالعولقی سی آئی اے کے ڈرون حملے میں ہلاک

صنعا(العربیہ ڈاٹ نیٹ) یمنی نژاد امریکی شہری اور جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے لیڈر نوجوان عالم دین انورالعولقی اپنے بعض ساتھیوں سمیت امریکی سی آئی اے کے بغیر پائیلٹ جاسوس طیارے کے میزائل حملے میں مارے گئے ہیں۔
یمنی وزارت دفاع نے صحافیوں کو ٹیکسٹ پیغام کے ذریعے بھیجے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”دہشت گرد انور العولقی اپنے بعض ساتھیوں سمیت مارے گئے ہیں”۔امریکی حکام نے القاعدہ سے وابستہ عالم دین کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔
یمنی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں العولقی کی ہلاکت کے واقعہ سے متعلق کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔ تاہم قبائلی ذرائع نے العربیہ کے نمائندے کو بتایا ہے کہ صوبے الجوف میں امریکا کے بغیر پائیلٹ جاسوس طیارے نے جمعہ کی صبح دس بجے کے قریب دوکاروں کو نشانہ بنایا ہے۔ان میں انورالعولقی اور ان کے بعض ساتھی سوار تھے۔
صوبے الجوف سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی شیخ کے مطابق حملے میں عولقی کے علاوہ القاعدہ کے تین کارکنان مارے گئے ہیں جبکہ ایک اور کار میں سوار القاعدہ کے کارکنان بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ایک امریکی عہدے دار نے بتایا ہے کہ میزائل حملے میں القاعدہ کا انگریزی زبان کا جریدہ مرتب کرنے والا ایک امریکی شہری بھی مارا گیا ہے۔امریکی ڈرون طیارے نے مئی میں بھی القاعدہ کے یمنی لیڈر پر میزائل حملہ کیا تھا لیکن وہ اس میں بال بال بچ گئے تھے۔
انورالعولقی پر2009ء میں ایک امریکی طیارے کو بم سے اڑانے کی سازش کا الزام عاید کیا گیا تھا اور امریکی حکام نے انھیں عالمی دہشت گرد قراردے رکھا تھا لیکن یمنی حکومت ماضی میں ان کے خلاف کارروائی کے لیے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔وہ شادی شدہ تھے اور ان کے پانچ بچے تھے۔
وہ انگریزی اور عربی دونوں زبانیں بڑی روانی سے بولتے تھے اوران کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ مغربی ممالک سے القاعدہ کے لیے جنگجوٶں کو بڑی تعداد میں بھرتی کرسکتے تھے۔امریکا نے انھیں نومبر 2009ء میں ایک فوجی اڈے پر حملے کا بھی موردالزام ٹھہرایا تھا۔فورڈ ہڈ ٹیکساس کے فوجی اڈے پر ایک مسلمان میجرڈاکٹر نضال حسن کی فائرنگ سے تیرہ امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔یمن کی ایک عدالت نے گذشتہ سال امریکا کے دباٶکے پیش نظر القاعدہ کے اس لیڈر کی کسی بھی حالت میں گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
امریکی صدر براک اوباما کے انسداد دہشت گردی کے مشیر جان برینان نے جنوری 2010ء میں کہا تھا کہ ”العولقی ایک مسئلہ ہیں۔وہ واضح طور پر جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کا ایک حصہ ہیں اور وہ صرف ایک عالم دین نہیں تھے”۔امریکا نے جولائی 2010ء میں انورالعولقی کا نام دہشت گردی کے حامیوں کی فہرست میں شامل کرلیا تھا۔امریکی حکومت نے ان کے تمام اثاثے منجمد کر دیے تھے اوران کے ساتھ کسی قسم کے مالی لین دین پر پابندی لگادی تھی۔
انورالعولقی یمن کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے والد یمن کے سابق وزیرزراعت رہے ہیں۔ وہ 1971ء میں نیومیکسیکو،امریکا میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم یمن سے حاصل کی تھی اور کولوراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی سے سول انجنئیرنگ میں گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔انھوں نے سان ڈیاگو یونیورسٹی سے ایجوکیشن لیڈرشپ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کررکھی تھی۔
انھوں نے امریکا بھرمیں انگریزی زبان میں اپنی شعلہ بیانی سے شہرت حاصل کی تھی جبکہ ان کے قبیلے کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک مبلغ تھے۔وہ یمنی عالم دین عبدالمجید الزندانی کے قائم کردہ ایک خیراتی ادارے کے لیے بھی کام کرتے رہے تھے۔امریکا نے مولانا زندانی کو بھی ایک عالمی دہشت گردی قراردے دیا تھا۔
انورالعولقی نے کچھ عرصہ قبل خبردار کیا تھا کہ براک اوباما نے یمن میں امریکی فوج بھیجی تواسے افغانستان جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے ایمسٹرڈیم سے ڈیٹرائٹ جانے والے ایک امریکی طیارے کو بم دھماکے اڑانے کی کوشش کرنے والے عمرفاروق عبدالمطلب اور فورٹ ہڈ ٹیکساس میں ایک مسلمان فوجی افسرکے ہاتھوں امریکی فوجیوں کے قتل کی تعریف کی تھی۔
یمن میں العولقی قبیلے نے گذشتہ سال القاعدہ کے جنگجوٶں کے خلاف حکومت سے تعاون سے اتفاق کیا تھا۔واضح رہے کہ العولقی یمنی صوبہ شیبوۃ کے بڑے قبائل میں سے ایک ہے اور اس کی متعدد شاخیں ہیں۔انورالعولقی کا نام یمن کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھا۔گذشتہ سال یمنی سکیورٹی حکام اور العولقی قبیلے کے متعددارکان نے بتایا تھا کہ ”حکومت القاعدہ کے جنگجوٶں کی تلاش میں مدددینے والے قبیلے کے جنگجوٶں کو ماہانہ وظائف اور اسلحہ دے رہی تھی۔
صوبہ شیبوۃ میں یمنی حکومت کی اس پالیسی کے مخالف العولقی قبیلے کی ایک شاخ کے سربراہ حسن بنان کے مطابق القاعدہ کے جنگجوٶں کی تلاش کے لیے ڈھائی ہزار سے زیادہ قبائیلیوں کو ٹولیوں میں تقسیم کیا گیا تھا اورانھیں روزانہ پچاس ڈالرز مشاہرہ دیا جاتا رہا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں