شامی فوج کا حمص کے نواحی قصبوں اور دیہات میں کریک ڈاؤن

شامی فوج کا حمص کے نواحی قصبوں اور دیہات میں کریک ڈاؤن

دمشق(العربیہ ڈاٹ نیٹ ،ایجنسیاں) شامی فوج وسطی صوبے حمص کے دیہات اور قصبوں میں ٹینکوں کے ساتھ اتوار سے حکومت مخالفین کے خلاف کارروائی کررہی ہے جس میں تین افراد زخمی ہو گئے ہیں جبکہ مزید فوجیوں نے اپنی سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ دیا ہے۔
حمص شامی صدر بشارالاسد کے خلاف جاری عوامی احتجاجی تحریک کا ایک بڑا مرکز بن چکا ہے اور وہاں سرکاری فوج اور ملازمت ترک کرکے جمہوریت نوازوں کے ساتھ ملنے والے فوجیوں کے درمیان جھڑپوں کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔
شامی فوج نے ٹینکوں کے ساتھ ترکی کی جانب جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع قصبے الراستان کا محاصرہ کررکھا ہے۔فوجیوں نے بھاری مشین گنوں کے ساتھ حکومت مخالف مظاہرین پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے۔
الراستان کے ایک مکین نے اپنے سیٹلائٹ فون کے ذریعے برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز کو بتایا ہے کہ ”قصبے کے صرف مشرقی حصے میں فوج کی ساٹھ کے قریب ٹینک اور بکتربند گاڑیاں موجود ہیں۔قصبے کا تمام مواصلاتی نظام منقطع کردیا گیا ہے اور گلیوں اور عمارتوں کی جانب فائرنگ کی جارہی ہے”۔
شامی صدر کے خلاف تحریک میں سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ فوج دمشق سے ایک سو پینسٹھ کلومیٹر شمال میں واقع حمص شہر کے نواحی قصبوں اور دیہات پر چڑھ دوڑی ہے اور وہاں فوجی بھگوڑے صدر اسد کے وفاداروں کے ٹھکانوں پر گوریلا حملے کررہے ہیں۔
شامی سکیورٹی فورسز حمص کے ایک اور قصبے تلبیسہ اور دودیہات ظفرانہ اور دیرالجن میں بھی حکومت مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کارروائیاں کررہی ہیں لیکن وہاں مرنے یا زخمی ہونے والوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کے مطابق شام میں 15مارچ سے صدر بشارالاسد کے خلاف جاری عوامی تحریک کے دوران سکیورٹی فورسز کی کریک ڈاٶن کارروائیوں میں مرنے والوں کی تعداد دو ہزار سات سو سے زیادہ ہوگئی ہے۔ان میں ایک سو سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔شامی حکام کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف تحریک کے دوران فوج اور پولیس کے سات سو اہلکار بھی مارے گئے ہیں۔شامی حکومت دہشت گردوں اور باغیوں کو ملک میں جاری بدامنی کا ذمے دار ٹھہرا رہی ہے۔
صدربشارالاسد کا کہنا ہے کہ غیرملکی طاقتیں بدامنی کو شام کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کوئی ریاست ان تیکنیکوں کو بغاوت کے خاتمے کے لیے بھی استعمال کرسکتی ہے۔
شام کے مختلف شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں شہری صدر بشارالاسد کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں لیکن ان کے زبردست احتجاج کے باوجود شامی صدر ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں اور وہ اپنے اوپر دوسرے ممالک اور عالمی لیڈروں کی تنقید کو بھی خاطر میں نہیں لارہے ہیں جبکہ امریکا، اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے شام کے خلاف مختلف النوع اقتصادی پابندیاں عاید کررکھی ہیں۔
شام کے اتحادی ملک ترکی کے وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے اتوار کو سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ شامی صدر کا جانا ٹھہرگیا ہے اور انھیں ان کے عوام اقتدار سے نکال باہر کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ”آپ ظلم برپا کرکے زیادہ دیر تک اقتدار میں نہیں رہ سکتے اور آپ عوام کی مرضی کے خلاف بھی زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتے”۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں