’شام میں دو ہزار دو سو ہلاکتیں ہوچکی ہیں‘

’شام میں دو ہزار دو سو ہلاکتیں ہوچکی ہیں‘

نیویارک(بی بی سی) اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ شام میں حکومت کی جانب سے مظاہرین کو کچلنے کی کارروائی کے آغاز سے اب تک دو ہزار دو سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

شام میں حکومت نے اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے مارچ سے کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے۔
اُدھر اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ’صدر بشارالاسد کی جانب سے فوجی کارروائی کو روکنے کے وعدوں سے پھر جانا پریشان کن ہے۔‘
اتوار کو صدر بشارالاسد نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور خبردار کیا تھا کہ کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کا جواب دیا جائے گا۔
پیر کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس کے آغاز پر نوی پلے نے کہا ’مارچ سے عوامی مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے اب تک دو ہزار دو سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ماہِ رمضان میں ساڑھے تین سو ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ فوج اور سکیورٹی فورسز پرامن احتجاجی مظاہروں کو کچلنے اور شہریوں پر اپنا تسلط دوبارہ قائم کرنے کے لیے طاقت کا بہت زیادہ استعمال کررہی ہیں جن میں بھاری اسلحہ بھی شامل ہے۔‘
اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں کی جانب سے ترتیب دی گئی رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں اخذ کیا گیا ہے کہ شام میں سکیورٹی فورسز بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔
سینتالیس اراکین پر مشتمل کونسل ایک عبوری قرارداد تیار کرنے پر غور کررہی ہے جس میں حکومت کی جانب سے شہریوں پر بلاامتیاز حملوں پر افسوس کا اظہار کیا جائے گا اور تشدد کی کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا جائے گا۔
تاہم جنیوا میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی کونسل کے فیصلوں کی اخلاقی اہمیت تو ہے تاہم اقوامِ متحدہ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ ان فیصلوں کو نافذ بھی کرائے۔
ان کے بقول شام پر اصل دباؤ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ہی آئے گا جہاں کم سے کم ایک مستقل رکن، روس، مخالفت کرے گا۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر نے واضح کیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کا اجلاس محض ایک اجلاس سے بڑھ کر ہے۔
انہوں نے کہا ’آج کے اجلاس کا مقصد بشارالاسد کی حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ وہ اقتدار چھوڑ دیں اور شام کے عوام کو آگے آنے دیں۔‘

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں