بہن عائشہ (بلوندر کور) سے ایک ملاقات

بہن عائشہ (بلوندر کور) سے ایک ملاقات

ایمان کے ساتھ ایک دن جینے میں جو مزہ ہے سینکڑوں سال بغیر ایمان رہ کر جینے میں وہ مزہ نہیں، یقین نہ آئے تو کچھ وقت کے لیے مسلمان بن کر دیکھ لیں ،میری آنکھ کھل گئی اور میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ کچھ روز کے لیے مجھے بھی مسلمان ہو کر دیکھنا چاہیے۔

اسماء : السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ

عائشہ: وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ

سوال… عائشہ باجی، اب کی مرتبہ تو آپ بہت زمانہ کے بعد آئیں، کیا بات ہے ؟

جواب… اسماء بہن! میں تو تڑپ رہی تھی، مگر فون ہی نہیں مل پاتا، نہ جانے کس طرح اس مرتبہ فون پر بات ہوئی ، تو میں نے وقت لیا اور آگئی۔

سوال… اصل میں ہمارے یہاں پُھلت سے ایک اردو میگزین ارمغان نکلتا ہے، مجھے حکم دیا تھا کہ آپ آنے والی ہیں، میں آپ سے اس کے لیے ایک نٹرویولوں۔

جواب… ہاں! میں ارمغان کو خوب جانتی ہوں، میں تو کچھ کچھ اردو پڑھنے لگی ہوں اور ارمغان بھی اٹک اٹک کر پڑھ لیتی ہوں۔

سوال… آپ پہلے اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟

جواب… میں ضلع فیروز پور پنجاب کے ایک قصبہ کے سکھ گھرانے میں 3 جون1965ء میں پیدا ہوئی، میرے پتاجی شری فتح سنگھ تھے، وہ علاقے کے پڑھے لکھے اور زمین دار لوگوں میں تھے ، میرا پرانا نام بلوندر کورتھا، میں نے اپنے شہرکے گرو گووند سنگھ کالج سے گریجویشن کیا، میری شادی جالندھر کے ایک پڑھے لکھے خاندان میں ہو گئی ، میرے شوہر اس وقت پولیس میں ایس او (S.O) تھے، ان کی بہادری او راچھی کارکردگی کی وجہ سے ان کے پرموشن ہوتے رہے اور وہ ڈی ایس پی بن گئے، میرے دو بیٹے اورایک بیٹی ہے اور تینوں پڑھ رہے ہیں۔

سوال… آپ اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟

جواب… میری ایک چھوٹی بہن آشاکور تھی، اس کی شادی بھی میرے پتا نے ایک پولیس تھانہ انچارج سے کر دی تھی، وہ بہت خوب صورت تھی، اس کا شوہر اس کو بہت چاہتا تھا، شادی کے بعد وہ اکثر بیمار رہنے لگی، روز روز اس کو کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا ،علاج کراتے تو کچھ ٹھیک ہو جاتی، پھر بیمار ہو جاتی ، اس کے شوہر نے اس کا دہلی تک علاج کرایا اور لاکھوں روپے خرچ کیے ، مگر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، مجبوراً سیانوں او رجھاڑ پھونک والوں کو دکھایا، کسی نے بتایا کہ اس پر تو اُوپرا اثر ہے مگر علاج کوئی نہیں کر پاتا، کسی نے بتایا کہ مالیر کوٹلہ میں ایک صاحبہ ہیں، وہ علاج کرتی ہیں ، ان کو وہاں بھیجا گیا، انہوں نے جھاڑا پھونکا، اس سے اس کو بڑی راحت ہوئی ، لیکن انہوں نے آشا سے کہا ،جب تم کو دو چار روز کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی تو تم دوزخ کی ہمیشہ کی تکلیف کو کیسے برداشت کرسکتی ہو؟ اس لیے اس تکلیف کی فکرکرو اور اس کا علاج یہ ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ او راگر تم مسلمان ہو جاؤ گی تو مجھے امید ہے کہ تم یہاں بھی ٹھیک ہو جاؤگی۔ پھر میں تمہیں اپنے حضرت صاحب کے پاس بھیجوں گی، وہ دعا کریں گے ، مجھے امید ہے کہ الله تعالیٰ تمہیں ضرور ٹھیک کر دے گا۔ آشا نے ان سے کہا کہ میں اپنے شوہر سے مشورہ کروں گی، انہوں نے آشا سے کہا کہ ایمان لانا اتنا ضروری ہے کہ اس میں شوہر سے اجازت کی بھی ضرورت نہیں ، بلکہ اگر شوہر مخالفت کرے، بلکہ وہ اگر اس بات پر مارے یا چھوڑ دے تو بھی انسان کی بھلائی اسی میں ہے کہ ایمان قبول کر لے، تاکہ اپنے پیدا کرنے والے مالک کو راضی کرکے ہمیشہ کی جنت حاصل کر لے ۔ آشا نے کہا کہ پھر بھی گھر والوں سے مشورہ کرنا اور سوچنا سمجھنا تو ضروری ہے، انہوں نے کہا تم جلدی مشورہ کرکے آجاؤ تو میں تمہیں کلمہ پڑھاکراپنے حضرت کے پاس بھیج دوں گی۔ وہ وہاں سے بھٹنڈہ آئی ،اپنے شوہر سے کہا، مجھے بہت آرام ملا ہے، مگر باجی کہتی ہیں کہ اگر تو مسلمان ہو جائے تو بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ اس کے شوہر اس سے بہت محبت کرتے تھے بولے تو کچھ بھی کر لے اورکچھ بھی بن جا، مگر تو ٹھیک ہو جائے، مجھے خوشی ہی خوشی ہے۔ اس نے فون پر باجی سے بات کی کہ مجھے حضرت صاحب کے یہاں جانے کا پتہ بتا دیں، میں ان کے پاس جاکر ہی مسلمان ہونا چاہتی ہوں، انہوں نے حضرت کا فون نمبر دیا،25 مئی2004ء کو صبح صبح آشانے حضرت صاحب کو فون کیا ،آشا نے مجھے بتایا کہ میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ میں اسلام لانے کے لیے آنا چاہتی ہوں ، میرے شوہر، میرے بچے اورگھر کا کوئی بندہ مسلمان نہیں ہو گا، بس اکیلے میں مسلمان ہوں گی۔ مولانا صاحب کے معلوم کرنے پر آشا نے اس کو مالیر کوٹلہ کی باجی سے جو باتیں ہوئی تھیں بتائیں، حضرت صاحب نے آشا سے کہا، تم نے ان سے ہی کلمہ کیوں نہ پڑھ لیا؟ آشا نے اصرار کیا کہ مجھے کلمہ آپ ہی کے پاس پڑھنا ہے ، مولانا صاحب نے کہا مجھ سے پڑھنا ہے تو ابھی فون پر پڑھ لو، آشا نے کہا نہیں، آپ کے پاس آکر ہی کلمہ پڑھوں گی ، مولانا صاحب نے کہا بہن! موت زندگی کا کوئی اطمینان نہیں ، تم تو بیمار بھی ہو تندرست آدمی کے بھی ایک سانس کا اطمینان نہیں کہ اگلا سانس آئے گا بھی کہ نہیں، اس لیے کلمہ فون پر پڑھ لو، جب یہاں آؤ گی تو دوبارہ پڑھ لینا ، مولانا صاحب کے کہنے پر آشا نے کہا کہ پڑھو ادیجیے، مگر اصل تو میں آکر ہی پڑھوں گی ، مولانا صاحب نے کہا اصل تو اسی وقت پڑھ لو، نقل یہاں آکر پڑھ لینا، وہ تیار ہو گئی، مولانا صاحب نے اس کو کلمہ پڑھوایا، اس کی موٹی موٹی باتیں سمجھائیں اور کہا کہ اب تمہیں نماز یاد کرنی ہے او رکسی بھی غیر اسلامی تہوار ، پوجا یا رسم سے بچنا ہے ، نام معلوم کرکے مولانا نے اس سے کہا، تمہارا اسلامی نام آشا سے بدل کر عائشہ ہو گیا ہے ، یہ ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کا نام بھی ہے ، فون پر بات کرکے اس نے خوشی خوشی سارے گھر کو بتایا، اپنے شوہر کو بھی بتایا، میں بھی جالندھر سے اس سے ملنے آئی ہوئی تھی، مجھے بھی بتایا مجھے ذرا برا بھی لگا کہ دھرم بدل کر یہ کیسے خوش ہو رہی ہے؟ مولانا صاحب سے فون پر بات کرکے اور کلمہ پڑھ کر نہ جانے اس کو کیا مل گیا تھا؟! میں بار بار اس کے منھ کو دیکھتی تھی ، جیسے پھول کھل رہا ہو ، عجیب سی چمک اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی، میں نے اس سے کہا بھی کہ آشا! آج تیرا چہرہ کیسا دمک رہا ہے! بولی میرے چہرے پر ایمان کا نور چمک رہا ہے ، سارے دن اس قدر خوش تھی کہ شاید دس سال میں پہلی بار گھر والوں نے اسے ایسا خوش اور تن درست دیکھا، کئی سال کے بعد اس نے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا، خوب ضد کرکے سب کو کھلایا ، سونے سے پہلے وہ نہائی اور کلمہ پڑھنا شروع کیا، ایک کاغذ پر اس نے وہ لکھ رکھا تھا، پہلے اس نے اسے خوب یاد کیا او رپھر زور زور سے پڑھتی رہی ، اچانک وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگی ، کہنے لگی یہ محل سونے کا کتنا اچھا ہے ؟ یہ کس کا ہے ؟ جیسے کس سے بات کر رہی تھی ، بہت خوش ہو کر بولی کہ یہ میرا ہے ، یہ میرا ہے ، یہ جنت کا محل ہے ۔ بہت خوش ہوئی ، اچھا ہم جنت میں جارہے ہیں، تھوڑی دیر میں کہنے لگی پھولوں کے اتنے حسین گل دستے کس کے لیے لائے ہو ؟ کتنے پیارے پھول ہیں یہ ! اچھا تم لوگ ہمیں لینے آئے ہو ، تھوڑی دیر میں ہنس کر بولی ، اچھا ہم تو اپنی جنت میں چلے تمہاری جیل سے چھوٹ کر اور زور زور سے پھر تین بار کلمہ پڑھا اور بیٹھی بیٹھی بیڈ پر ایک طرف کو لڑھک گئی ، ہم سبھی لوگ گھبرا گئے، اس کو لٹایا، بھائی صاحب ڈاکٹر کو بلانے چلے گئے ، ڈاکٹر صاحب آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو مر چکی ہے ، مگر وہ جیسے ہنستے ہوئے سو گئی ہو ، گھر میں کہرام مچ گیا ، گھر میں مشورہ ہوا کہ یہ مسلمان ہو کر مری ہے ، اگر ہم لوگوں نے اس کو اپنے مذہب کے مطابق جلایا تو کبھی ہم پر کوئی بلا آجائے ، صبح کو جیجا (بہنوئی)نے مالیر کوٹلہ باجی کو فون کیا کہ آشا کا رات میں انتقال ہو گیا ہے ، ہمارے یہاں تو مسلمان نہیں ہیں ان کے کریا کرم کے لیے مالیر کوٹلہ سے کچھ لوگ آجائیں ، دس بجے تک ایک گاڑی بھر کے مالیر کوٹلہ سے مرد عورتیں آگئیں اوران کو دفن کیا ، 1947ء کے بعد پہلی مرتبہ اس شہر میں کوئی آدمی دفن ہوا تھا، قبرستان ابھی تک موجود تھا۔

سوال… یہ تو آپ نے اپنی بہن کے مسلمان ہونے کی بات بتائی جو واقعی حیرت ناک ہے ، موت بھی کس قدر قابل رشک ، زندگی میں نہ کوئی نماز پڑھی، نہ کوئی روزہ رکھا ، نہ کوئی اسلامی عمل کیا او رکیسی پاک صاف ، گناہوں سے پاک، دنیا سے گئی ، کیسا قابل رشک انتقال ہوا! مگر آپ سے میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ذکر کرنے کی درخواست کی تھی ، وہ سنائیے؟

جواب… اصل میں میرا اسلام عائشہ کے اسلام سے جڑا ہوا ہے، آشا او رمجھ میں حددرجہ محبت تھی، اس کی اچانک موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا، مگر اس کی موت او راسلام قبول کرنے کے بعدایک دن کی زندگی مجھے بار بار سوچنے پر مجبو رکرتی تھی کہ اس دنیا کی جیل سے وہ جنت کے محل کی طرف صرف ایک کلمہ کی برکت سے پہنچ گئی، وہ کس طرح ہنستے ہوئے دنیا سے گئی، میں نے اپنے میکے اور سسرال میں کئی لوگوں کو مرتے دیکھا، کس طرح تڑپ تڑپ کر کتنی مشکل سے جان نکلی، میں سوچتی کہ آشا کو کیا مل گیا جس کی وجہ سے اتنا مشکل مرحلہ آسان ہو گیا، ایک رات میں نے خواب دیکھا، آشا بہت خوب صورت ہیرے اور موتی ٹنکے کپڑے پہنے، تخت پر خوب صورت تکیہ لگائے بیٹھی ہے ، تاج سر پر لگا ہے ، جیسے کوئی رانی یا شہزادی ہو، میں نے اس سے سوال کیا کہ آشا! تجھے اتنی آسان موت کیوں کر مل گئی؟ بولی ایمان کی وجہ سے اور باجی میں تجھے سچ بتاتی ہوں کہ مجھے ایمان کے ساتھ صرف ایک دن ہی تو ملا ہے ، ایمان کے ساتھ ایک دن جینے میں جو مزہ ہے سینکڑوں سال بغیر ایمان رہ کر جینے میں وہ مزہ نہیں ، یقین نہ آئے توکچھ وقت کے لیے مسلمان بن کر دیکھ لیں، میری آنکھ کھل گئی او رمیرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ کچھ روز کے لیے مجھے بھی مسلمان ہو کر دیکھنا چاہیے، میں نے اپنے شوہر سے اپنی خواہش کا ذکر کیا، میں ہفتہ دو ہفتہ کے لیے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور دیکھنا چاہتی ہوں کہ ایمان کیا چیز ہے؟ آشا کی موت کے بعد میں چوں کہ ہر وقت غمگین رہتی اور چپکے چپکے کمرہ بند کرکے روتی رہتی، تو میرے شوہر نے مجھے اجازت دے دی کہ تجھے تسلی ہو جائے گی تو کرکے دیکھ لے، مگر یہ سوچ لے کہ کبھی تو بھی آشا کی طرح ایک دن بعد مر جائے ، میں نے کہا ، اگر میں مرگئی تو شاید میں بھی جنت میں چلی جاؤں اور آپ کوئی اچھی دوسری بیوی کر لیجیے، مگر دیکھیے! میرے بچوں کو وہ نہ ستائے۔

دو روز بعد میں نے اپنے بہنوئی سے مالیر کوٹلہ والی باجی کا فون نمبر لیا او ران سے حضرت صاحب کا فون نمبر لیا اورمیں نے ان سے فون پر کہا کہ میں حضرت صاحب کے پاس جانا چاہتی ہوں اور مقصد یہ ہے کہ میں ایک ہفتہ کے لیے مسلمان ہونا چاہتی ہوں ، وہ بہت ہنسی کہ مسلمان ہونا کوئی ناٹک یا ڈرامہ تو نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے اپنا روپ بدل لیں، پھر بھی انہوں نے خوشی کا اظہار کیا، آپ ہمارے حضرت صاحب کے پاس جائیں گی تو وہ آپ کو بہت اچھی طرح سمجھا دیں گے ، میں نے فون حضرت صاحب کو ملایا، کئی روز کی کوشش کے بعد ان سے بات ہوپائی ، میں نے ان سے ملنے آنے کی خواہش کا ذکر کیا ، وہ مجھ سے ملنے آنے کی وجہ معلوم کرتے رہے اور بولے آپ مجھے خدمت بتائیے، کیا معلوم فون پر ہی وہ مسئلہ حل ہو جائے۔ مجھے خیال آیا کہ کہیں مجھے بھی فون پر ہی کلمہ پڑھوادیں اورمسلمان ہونے کو کہیں، اس لیے میں نے بتانا نہیں چاہا ، مولانا صاحب نے مجھ سے کہا ، بہن! میں بالکل بیکار آدمی ہوں، اگر آپ ہاتھ دکھانا چاہتی ہیں یا جادو وغیرہ کا علاج کرانا چاہتی ہیں یا کوئی تعویذ گنڈہ وغیرہ بنوانا چاہتی ہیں تو ہمارے باپ داداؤں کو بھی یہ کام نہیں آتا،آپ مجھے ملنے کا مقصد بتائیں، اگر وہ مقصد یہاں آکر حل ہو سکتا ہے تو سفر کرنا مناسب ہے ، ورنہ اتنا لمبا سفر کرکے پریشان ہونے سے کیا فائدہ ہوگا؟ مولانا صاحب نے جب بہت زور دیا تو مجھے بتانا پڑا کہ میں ایک ہفتہ کے لیے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور میں اس آشا کی بڑی بہن ہوں، جس کو آپ نے فون پر کلمہ پڑھوایا تھا او راس کا اسی رات میں انتقال ہو گیا تھا، آشا کا نام سن کر مولانا صاحب نے بڑی محبت سے کہا، اچھا اچھا، آپ ضرور آئیے اور جب آپ کو سہولت ہو، آپ آجائیے، مجھے آج بتا دیجیے، میں آپ کے لیے اپنا سفر ملتوی کردوں گا۔ مولانا صاحب نے مجھے جالندھر سے آنے کا راستہ بتایا کہ شالیمار ایکسپریس سے سیدھے کھتولی اتریں اور اسٹیشن سے آپ کو کوئی لینے آجائے گا، سفر کی تاریخ طے ہو گئی کوئی مناسب آدمی میرے ساتھ جانے والا نہیں تھا، میں نے اپنی نن سُس (شوہر کے رشتے کی نانی) کو تیار کیا، گھر میں کام کرنے والی بھی او رنانی بھی، ہم تینوں 14 نومبر کی صبح نو بجے کھتولی پہنچے کھتولی حضرت صاحب کی گاڑی لینے کے لیے آگئی تھی، پُھلت آرام سے پہنچ گئے، مولانا صاحب پُھلت میں موجود نہیں تھے، مگر آپ کی امی نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب ابھی دوپہر تک پُھلت پہنچ جائیں گے، ان شاء الله۔ ہم لوگوں نے نہا کر ناشتہ کیا اور تھوڑی دیر آرام کیا او راس کے بعد گھر کی عورتوں سے ملاقات ہو گئی او رمیں اپنے آنے کی غرض بتائی ، منیرہ باجی اور امی جان نے مجھے سمجھایا کہ ایک ہفتہ کے لیے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا، یہ تو موت تک کے لیے فیصلہ کرنا ہوتا ہے، میں پریشان ہو گئی کہ مجھے اپنا مذہب اور سب کچھ بالکل چھوڑنا ہو گا، یہ کس طرح ہو سکتا ہے ، دوپہر دو بجے مولانا صاحب آگئے ، باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے، مولانا صاحب دو منٹ کے لیے ہمارے پاس آئے ، ہمیں تسلی دی، بہت خوشی ہوئی ، آپ آئیں، عائشہ مرحومہ کی وجہ سے آپ کے پورے خاندان سے مجھے بہت تعلق ہو گیا ہے ، میری واپسی کا نظام معلوم کیا، جب میں نے بتایا کہ میں تین روز کے لیے آئی ہوں تو کہا اصل میں باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں، جن میں کئی ایسے ہیں جو دو تین روز سے پڑے ہوئے ہیں ، رات کو ان شاء الله اطمینان سے آپ سے ملیں گے ، اسماء بہن آپ کو یاد ہو گا آپ نے مجھے حضرت صاحب کی کتاب” آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں“ لا کر دی ، میں نے شام تک اس کو تین دفعہ پڑھا میرا دل ایمان کو ہمیشہ کے لیے قبول کرنے کے سلسلہ میں صاف ہو گیا، مغرب کی نماز پڑھ کر مولانا صاحب ہمارے پاس آئے ، مجھے ایمان کی ضرورت کے بارے میں بتایا مرنے کی بعد کی زندگی ، جنت دوزخ او راپنے پیدا کرنے والے کو راضی کرنے کے بارے میں بتایا۔ ”آپ کی امانت“ پڑھ کر میرے ذہن سے ایک ہفتہ کے لیے اسلام قبول کرنے کا خیال ختم ہو گیا تھا ، میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں آمادگی کا اظہار کیا تو مجھے اسلام کا کلمہ پڑھوایا، گھر کی سب عورتیں جمع تھیں، میں نے کہا آپ میرا نام ، جو آشا کا نام رکھا تھا رکھ سکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، آپ کا نام بھی عائشہ رکھتے ہیں او رعائشہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بہت ہی لاڈلی اہلیہ محترمہ ہیں۔

اسماء تمہیں یاد ہو گا کہ میں نے مولانا صاحب سے دو سوال کیے تھے، میں نے دیکھا مولانا صاحب بات تو ہم سے کر رہے تھے، مگر رخ ان کا آپ کے گھر والوں کی طرف تھا، میں نے سوال کیا کہ آپ ہم سے منھ پھیر کر کیوں بات کر رہے ہیں، تو مولانا صاحب نے کہا، اسلام عورتوں او رمردوں کے درمیان پردہ کا حکم دیتا ہے ، وہ سب عورتیں جن سے اسلام کے قاعدہ کے مطابق مسلمان کی شادی ہو سکتی ہو ، سب عورتیں ایک مرد کے لیے نامحرم ہیں، ان ے پردہ کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ مجھے پردہ کے پیچھے سے آپ سے بات کرنی چاہیے تھی، مگر مجھے خیال ہوا کہ آپ کو بڑی اجنبیت سی لگے گی، اس لیے میں نے سامنے آکر اپنے رخ کو دوسری طرف کرکے نامحرم پر نگاہ نہ ڈالنے کے اسلام کے حکم پر عمل کیا، ایمان کی دعوت جیسی سب سے محبوب عبادت میں ، کسی نامحرم پر نگاہ پڑنے کے گناہ کے ساتھ اثر نہیں رہتا، میں نے کہا: میری بہن آشا نے جب آپ سے ایمان لے آنے کی بات کہی تو اتنا انکار کرنے پر بھی آپ نے ان کو فون پر کلمہ پڑھوایا، میں اس لیے آپ سے آنے کی غرض نہیں بتا رہی تھی کہ کہیں آپ مجھے بھی فون پر کلمہ پڑھوا کر ٹال دیں ، مگر آپ نے مجھے فون پر کلمہ پڑھنے کے لیے نہیں کہا اس کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت صاحب نے جواب دیا، فون پر کلمہ پڑھوانا ٹالنا نہیں ہے ، بلکہ ناپائیدار، پانی کے بلبلے کی طرح کی فانی زندگی کا خیال اور سچی ہم دردی ہے ، واقعی نہ جانے مجھے کیوں خیال نہیں آیا، میں نے غلطی کی ، خدانہ کریں آپ کا راستہ میں یا اس دوران انتقال ہو جاتا تو کیا ہوتا یا میرا انتقال ہو جاتا، خود میرے لیے بڑی محرومی تھی، نہ جانے کس خیال میں مجھ سے بھول ہوئی او رپھر آپ چار پانچ روز اسلام سے محروم رہ گئیں او راتنی بڑی ضرورت اور خیر میں تاخیر ہو گئی، الله تعالیٰ مجھے معاف فرمائے ، واقعی میں نے بڑی غلطی کی، اصل میں الله تعالیٰ کام کرنے والوں کے دلوں میں خو د ہی تقاضے ڈالتے ہیں، آپ ایک ہفتے کے لیے اسلام قبول کرنا چاہتی تھیں، ظاہر ہے یہ کوئی کھیل تھوڑی ہے، اقبال ایک شاعر ہیں، انہوں نے کہا ہے #
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اسلام قبول کرنا تو اپنی چاہت کو ، اپنی انا کو قربان کر دینا ہے ، اس کے لیے آپ کے ساتھ فون پر بات کرنا کافی نہیں تھا، اس لیے الله نے دل میں فون پر کلمہ پڑھوانے کی بات نہیں ڈالی ، آشا سے بات کرکے تو مجھے خود اندر سے لگ رہا تھاکہ اگر اس نے اسی وقت کلمہ نہ پڑھا تو شاید اس کی موت ایک دو روز میں ہو جائے ، حضرت صاحب نے سمجھایا کہ اب ہر قربانی دے کر اس ایمان کو قبر تک ساتھ لے جانا ہے ، اس کے لیے آپ پر مشکلیں بھی پڑ سکتی ہیں، قربانیاں دینی پڑ سکتی ہیں ، ایک مٹی کا برتن بھی کمہار سے کوئی خریدتا ہے تو ٹھونک ٹھونک کر دیکھتا ہے، اتنا قیمتی ایمان لانے والے کو آزمایا بھی جاسکتا ہے، اگر آپ ایمان پر جمی رہیں تو موت کے بعد کی زندگی میں یہ محسوس ہو گا کہ کتنے سستے داموں میں یہ نعمت ملی ہے ۔ حضرت صاحب نے گھر کے لوگوں کو مجھے نماز او رکھانے وغیرہ کے طریقے سکھانے کو کہا ، میری نانی او رکام کرنے والی کے بارے میں معلوم کیا، امی جان او رمنیرہ باجی ان لوگوں کو سمجھاتی رہیں ، اگلے روز حضرت صاحب سفر پر چلے گئے ، ہماری واپسی سے دو گھنٹہ پہلے لوٹے، ہماری بوا اور نانی کو سمجھایا، آپ اس دولت سے محروم کیوں جارہی ہیں ؟ کافی حد تک تو وہ پہلے سے ہی تیار ہو گئی تھیں ، حضرت صاحب کے سمجھانے سے وہ کلمہ پڑھنے پر تیار ہو گئیں ، ان کو کلمہ پڑھوایا اور بوا کا نام حضرت نے ماریہ او رنانی کا نام حضرت نے آمنہ رکھا ، خوشی خوشی ہم بامراد ہو کر رخصت ہوئے ، گھر کے سبھی لوگوں نے ہمیں ایسی محبت سے رخصت کیا جیسے میں اسی گھر میں پیدا ہوئی ہوں ، اسی گھر کی ایک فرد ہوں ، نہ جانے کیوں آج تک میں جب پُھلت یا دہلی آتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے ، جیسے میں اپنے میکے آتی ہوں۔

سوال… گھر جانے کے بعد آپ کے شوہرکا انتقال ہو گیا تھا ،اس وقت آپ کو کیسا لگا؟ انتقال کس طرح ہو اذرا بتائیں؟

جواب… حضرت صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ اب اپنے رشتہ داروں سے محبت کا حق یہ ہے کہ آپ سب کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کریں او راپنے شوہر کو بھی اسلام کی طرف لائیں ، بچوں کو بھی مسلمان کریں ، مجھے یہ بھی بتایا تھاکہ اسلام کے لیے تمہیں آزمائشیں سہنی پڑیں گی، مجھے ایسا لگا جیسے حضرت صاحب دیکھ کر کہہ رہے تھے، مجھے سخت امتحان سے گزرنا پڑا، میں نے جاکر اپنے شوہر سے اپنا پورا حال بتایا کہ اب میں ہمیشہ کے لیے مسلمان ہو گئی ہوں او ران پر زور دیا آپ بھی مسلمان بن جائیں ، وہ مجھ سے بہت والہانہ محبت کرتے تھے، پہلے تو سرسری طور پر لیتے رہے ، جب میں نے زور دینا شروع کیا تو انھوں نے مخالفت کرنا شروع کی اور مجھے اسلام پر رہنے سے روکا، میں اپنے الله سے دعا کرتی ، میں نے حضرت صاحب سے فون پر بات کی کہ ایک مسلمان او رایک سکھ میاں بیوی کس طرح رہ سکتے ہیں ؟ تو حضرت نے بتایا کہ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد آپ سے ان کا شوہر بیوی کا رشتہ نہیں رہا اور شادی ( نکاح) ٹوٹ گیا، مگر اس امید پر آپ احتیاط کے ساتھ ان کے ساتھ رہیے کہ ان کو ایمان نصیب ہو جائے اور بچوں کی زندگی او رایمان اور مستقبل کا مسئلہ بھی حل ہو جائے ، یہ معلوم کرکے مجھے ان کے ساتھ رہنے میں بڑی گھٹن محسوس ہونے لگی ، روز رات کو ہم میں لڑائی ہوتی ، آدھی آدھی رات گزر جاتی، مجھے حضرت صاحب نے الله سے دعا کے لیے کہا اوربتایا کہ تہجد کی نماز میں دعا کروں، ایک رات ساری رات ہی نماز پڑھتی رہی اور روتی رہی ، میرے الله! آپ کے خزانے میں کس چیز کی کمی ہے آپ میرے شوہر کو ہدایت کیوں نہیں دے سکتے؟ میرے الله نے میری دعا سن لی ، اگلی رات جب میں نے ان سے مسلمان ہونے کو زور ڈالا تو انہوں نے مخالفت نہیں کی اور بولے روز روز کے جھگڑوں سے میں بھی عاجز آگیا، اگر تو اس میں خوش ہے تو چل میں بھی مسلمان ہو جاتا ہوں ، کر لے مجھے مسلمان، میں نے کہا میری خوشی کے لیے مسلمان ہونا کوئی مسلمان ہونا نہیں ، بلکہ پیدا کرنے والے ، دلوں کا بھید جاننے والے مالک کو راضی کرنے کے لیے مسلمان ہونا ہے، میں نے ان کو حضرت صاحب کی کتاب” آپ کی امانت آپ کی سیوا میں“ دی ، پہلے بھی میں نے ان کو یہ کتاب پڑھوانا چاہی تو وہ پھینک دیتے، مگر اس روز انہوں نے وہ کتاب لے لی اور پڑھنا شروع کی ، پوری کتاب بڑے غور سے پڑھی، جیسے جیسے وہ کتاب پڑھتے رہے میں نے محسوس کیا ان کا چہرہ بدل رہا ہے اور پھر اس کتاب میں سے زور زور سے تین بار کلمہ شہادت پڑھا، بولے یہ کلمہ اب میں تیری خوشی کے لیے نہیں بلکہ اپنی خوشی او راپنے رب کی خوشی کے لیے پڑھ رہا ہوں ۔ میں بیان نہیں کر سکتی دو مہینے کے مسلسل کہرام کے بعد میرے گھر میں خوشی آئی تھی ، اگلے روز معلوم ہوا کہ ان کا روپڑ ٹرانسفر ہو گیا ہے، وہاں گئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ وہاں چیف منسٹر کا دورہ ہوا، ان کے پروگرام میں وہ مصروف تھے، ایک جگہ سیکورٹی کا معائنہ کرنے لیے وہ گئے اور کالج کی باؤنڈری کے نیچے کھڑے تھے، تیز ہوا چلی اور ہوا کا ایک بگولہ ایسا آیا کہ باؤنڈری کا وہ حصہ جس کے نیچے وہ کھڑے تھے ان کے اوپر گر گیا اور اس دیوار کے نیچے دب کر اسی وقت ان کا انتقال ہو گیا۔

اسماء بہن میں بیان نہیں کرسکتی کہ یہ حادثہ میرے لیے کتنا سخت تھا! مگر میرے الله کا کرم ہے اس نے مجھے ہمت دی، ایمان پر اس کا الٹا اثر نہیں ہوا، مجھے اندر سے اس بات کا احساس دل کو تھامے رہا کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا او روہ جنت میں چلے گئے ، جہاں چند دن کے بعد مجھے بھی ان شاء الله جانا ہے، ان کے گھر ان کے کریا کرم( تجہیز وتدفین) پر بڑا ہنگامہ ہوا، میں نے کہا میں ہر گز ان کو جلنے نہیں دوں گی، میں اس لاش کی وارث ہوں ، مجھے اس کا قانونی حق ہے، مگر گھر کے سب لوگ ضد کر رہے تھے کہ یہ ہمارے خاندان کا فرد ہے ، ڈی جی پی ، اے ڈی جی پی ، آئی جی، ڈی آئی جی، سب موجود تھے، بہت محنت کے بعد یہ طے ہوا کہ ان کی سمادھی بنادی جائے ، ان کی سمادھی بنا دی گئی اور میں نے ایک مولانا صاحب کو بلاکر ان کی جنازہ کی نماز سمادھی بنانے کے بعد پڑھوائی۔

سوال… اس کے بعد آپ پھر جالندھر آگئیں؟

جواب… روپڑ چھوڑ کر میں جالندھر آگئی، حضرت صاحب کے بتانے کے بعد میں نے اپنی عدت پوری کی، میرے بھائی لندن میں رہتے ہیں، انہوں نے مجھ سے کہا آپ انگلینڈ آجائیں، میں نے پاسپورٹ بنوایا، ایک روز میں نے کعبہ کو خواب میں دیکھا، اٹھ کر میں نے فون پر حضرت صاحب کو بتایا حضرت نے بتایا کہ آپ پر حج فرض ہو گا، مگر کوئی محرم ہونا ضروری ہے اور آپ کاکوئی محرم نہیں ہے، اس لیے آپ کسی سے شادی کریں، میں اپنے بچوں کے مستقبل کی وجہ سے لاکھ کوشش کے باوجود اپنے کو راضی نہیں کر پائی ، مگر نہ جانے کیوں مجھے حج کو جانے کی ، جنون کی حد تک دھن لگ گئی ، اس کے لیے بار بار پھُلت اور دہلی کا سفر کیا، مگر ایجنٹوں کے پاس بار بار کوشش کے باوجود کوئی صورت نہ بن سکی، آپ اور گھر کے سب لوگ حج کو چلے گئے اور میں تڑپتی رہ گئی، یہ حج سے محرومی خود میرے لیے بڑا امتحان تھا، میں بہت رویا کرتی تھی ، اپنے الله سے فریاد کیا کرتی تھی ، مجھے ایسا لگتا تھا کہ شاید اب بھی میں حج کو چلی جاؤں، بقر عید سے تین دن پہلے جب مجھے خیال آیا کہ اب حج کے تین دن باقی ہیں ، اس لیے کہ مجھے یہ معلوم تھا کہ حج بقر عید کے دنوں میں ہوتا ہے ، میں صبح تہجد میں روتے روتے بے ہو ش ہو گئی، میں نے نیم بیداری میں دیکھا میرے سر پر احرام کا اسکارف بندھا ہے اور میں مکہ میں ہوں اور پھر منیٰ کے لیے چلے ، غرض مکمل حج کیا، میری آنکھ کھلی او رہوش آیا تو میں بیان نہیں کرسکتی کہ مجھے کتنی خوشی تھی ، میں نے کسی طرح حضرت صاحب کا مکہ مکرمہ کا فون لیا اور خوشی خوشی تقریباً پچیس منٹ تک پورے حج کی یہ تفصیل بتائی، حضرت صاحب خود حیرت میں رہ گئے۔

سوال… ابی(والد صاحب) بتا رہے تھے کہ پچھلے سال آپ حج کو گئی تھیں، امسال تو ہم حج میں بار بار آپ کا ذکر اور افسوس کرتے رہے۔

جواب… میں اپنے الله کے قربان جاؤں کہ اس نے میری حج کی دعا سن لی، اگلے سال میں نے اپنے ایک بھائی پر کوشش کی او راس کو باہر کا سفر کرانے یعنی حج کا لالچ دے کر مسلمان ہونے پر زور دیا او ربتایا کہ گرونانک جی بھی حج کو گئے تھے، کوشش کے بعد وہ مسلمان ہو گئے اور ہم دونوں کو پچھلے سال حج کی سعادت نصیب ہو گئی۔

سوال… ارمغان کے حوالے سے آپ مسلمانوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

جواب… بس میں اپنی بہن عائشہ کی بات دہراتی ہوں کہ ایمان کی نعمت کی قدر کریں اور ایمان کے ساتھ ایک دن سینکڑوں سال کے بغیر ایمان کی زندگی سے افضل ہے او رپھر سارے جہانوں کے لیے رحمت والا نبی صلی الله علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے سارے انسانوں کو اس دنیا کی قید سے جنت میں لے جانے کی فکر کریں، میرے او رمیرے گھر والوں کے لیے دعا کریں کہ سب کا خاتمہ ایمان پر ہو۔آمین بہت بہت شکریہ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں