معافی مانگنے تک اسرائیل سے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے: ایردوآن

معافی مانگنے تک اسرائیل سے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے: ایردوآن

انقرہ(مرکز اطلاعات فلسطین) ترکی کے وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے ایک مرتبہ پھراسرائیل اور انقرہ کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بارے میں واضح اور دو ٹوک موقف اختیارکیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جب تک اسرائیل باضابطہ طورپر  “مرمرہ” جہاز کے رضاکاروں کی ہلاکت  پرمعافی نہیں مانگے گا اسرائیل سے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔

انقرہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں ترک وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل اگر ترکی کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتا ہے تو اسے لا محالہ انقرہ سے معافی مانگنی ہوگی اور غزہ کی معاشی ناکہ بندی پرشرمساری کا اظہار کرکے اسے ختم کرنے کا اعلان کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ترکی کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں کوئی جلدی نہیں اور نہ ہی ترکی کی کوئی ایسی مجبوری ہے۔ اسرائیل اگر خود یہ چاہتا ہے کہ انقرہ کے ساتھ تعلقات معمول پرآئیں تو اسے سنہ 2010ء میں غزہ امدادی سامان لے کر جانے والے ہمارے رضاکاروں کی ہلاکت پر معافی مانگنا ہو گی۔ شہداء کے خون کا ہرجانہ ادا کرنا ہو گا اور غزہ کی پانچ سال سے مسلط معاشی ناکہ بندی اٹھانا ہو گی۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ترک وزیراعظم نے انقرہ ۔ تل ابیب تعلقات میں سرد مہری کی ذمہ داری اسرائیلی حکومت پرعائد کی۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کا موقف اصولی موقف پرقائم ہے، تعلقات میں بہتری میں ناکامی کی تمام ترذمہ داری صہیونی حکومت پر ہے۔ یہ صہیونی حکومت کی ہٹ دھرمی ہے کہ آج تک انقرہ اور تل ابیب ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکے۔ فلسطین میں ریاستی دہشت گردی اور غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے تسلسل پر بات کرتے ہوئے ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ “غزہ کے شہریوں کو درپیش مشکلات میں اسرائیل کے پیش کردہ جواز تسلیم نہیں کیے جا سکتے۔ یہ اسرائیل کا مکروہ چہرہ ہے جو ہم فلسطینی خواتین، بچوں اور معصوم شہریوں کے قتل عام کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل کی حکومت اپنے ان جنگی جرائم کو جواز کے لبادے پہناتی ہے لیکن ہم ان من گھڑت جواز اور دلائل کو تسلیم نہیں کر سکتے اور ان کی بنیاد پر صہیونی ریاست کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔
ادھر دوسری جانب اسرائیل کے اسٹریٹجیک امور کے وزیر موشے ایالون نے ترک وزیراعظم طیب ایردوآن کے موقف کے ردعمل میں کہا ہے کہ ان کا ملک انقرہ سے معافی نہیں مانگے گا۔ موشے کا کہنا تھا کہ ترکی سے معافی مانگنے کی کوئی معقول وجہ نہیں، یہی وجہ ہےکہ تل ابیب انقرہ کو کسی قسم کی معافی کی درخواست نہیں دے گا۔
خیال رہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں کشیدگی سنہ 2008ء کے آخر میں غزہ پر مسلط جنگ کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، جو ابھی برقرار تھی کی گذشتہ برس مئی کے آخر میں محصورین غزہ کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے فریڈم فلوٹیلا کے جہاز مرمرہ پر حملے میں نو ترک رضاکاروں کی شہادت کے بعد تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو گیا۔ جس کے بعد ترکی کے تل ابیب سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔ اس کے بعد ترکی کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ جب تک اسرائیل باضابطہ طور پر اس کے رضاکاروں کی شہادت پر معافی نہیں مانگے گا اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال نہیں ہوں گے۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں