چودہ ’سابق‘ طالبان دہشتگردوں کی فہرست سے خارج

چودہ ’سابق‘ طالبان دہشتگردوں کی فہرست سے خارج

اقوام متحدہ(بى بى سى) اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نےافغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی افغان صدر حامد کرزئی کی کوششوں کو کامیاب بنانے کےلیے چودہ ’سابق‘ طالبان کو دہشتگروں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔ جن افراد کو دہشتگردوں کی فہرست سے خراج کیا گیا ہے ان میں چار ایسے ’سابق‘ طالبان بھی ہیں جو اس ستر رکنی افغان امن کونسل کے رکن ہیں جسے افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کےلیے تشکیل دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کا فیصلہ افغان حکومت کی درخواست پر کیاگیا ہے۔افغان حکومت گزشتہ ایک برس سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے دہشتگردوں کی فہرست سے پچاس طالبان کو نکلوانے کی کوشش کر رہی تھی۔
افغان حکومت نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کو ایسی شہادتیں مہیا کی ہیں کہ یہ ’سابق‘ طالبان تشدد کی راہ چھوڑ کر معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں اور وہ افغانستان کے مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے دہشتگردوں کی فہرست سے خارج کیے جانے کے بعد ان طالبان پر سفری پابندیاں ختم اور ان کے منجمد اثاثے بحال ہو جائیں گے۔
اقوام متحدہ میں جرمنی کے سفیر پیٹر وٹنگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سکیورٹی کونسل اور عالمی برادری افغان حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کرتی ہے جو افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کے لیے کر رہی ہے ۔ دہشتگردوں کی فہرست کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی سربراہی جرمنی کے پاس ہے۔
چودہ ’سابق‘ طالبان کے ناموں کے اخراج کے باوجود اب بھی ایک سو تیئس طالبان کے نام بلیک لسٹ پر موجود ہیں۔
جن لوگوں کو دہشتگردوں کی فہرست سے ہٹایا گیا ہے ان میں طالبان حکومت کے نائب وزیر ارسلا رحمانی، طالبان حکومت کے سعودی عرب میں سفیر حبیب اللہ فازی، سابق طالبان نائب وزیر فقیر محمد خان اور سابق وزیر صعنت سید رحمان حقانی شامل ہیں۔
سنہ انیس سو ننانوے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس وقت کی طالبان حکومت میں شامل کئی افراد پر اس لیے پابندیاں عائد کر دی تھیں کہ طالبان حکومت القاعدہ کے سربراہ اوسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔
روس نے طالبان رہنماؤں کے نام دہشتگردوں کی فہرست سے خارج کرنے کی مخالفت کی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سےان رہنماؤں کے القاعدہ سے اپنے مراسم توڑنے کے بارے میں جو شواہد فراہم کیئےگئے ہیں وہ ناکافی ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں