’فرقہ واریت اور بدعملی حرام خوری کے منفی اثرات ہیں‘

’فرقہ واریت اور بدعملی حرام خوری کے منفی اثرات ہیں‘

خطیب اہل سنت حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے جمعہ رفتہ میں جامع مسجد مکی کے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے انسانی زندگی پر رزق حلال کے اثرات کے بارے میں گفتگو کی۔ قرآنی آیات: “يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ”. و”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ”, کی تلاوت کے بعد انہوں نے کہا مذکورہ پہلی آیت میں اللہ تعالی نے انبیاء علیھم السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ہے حلال روزی کھاؤ اور نیک اعمال کرو، انبیاء جو اللہ کے خاص بندے ہیں اور پیغمبری کے لیے انہیں چنا گیا تھا اس امر پر حکم ہوئے۔
آپ نے مزید کہا اس آیت سے دو باتیں سامنے آتی ہیں: پہلی بات یہ کہ رزق حلال ہونا چاہیے، کھانا، پوشاک، مکان و رہائش اور سواری سمیت ہر چیز حلال طریقے سے حاصل ہو۔ دوسری بات نیک اور اچھے کام کرنا۔ معلوم ہوا جب رزق حلال ہو اور حرام کے اشتباہ سے پاک ہو تو اس کا اعمال پر اثر پڑے گا۔ جب آدمی حلال کمائے تو اسے نیک اعمال کی توفیق حاصل ہوگی۔
مولانا عبدالحمید نے سورۃ البقرۃ کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے حلال کھاؤ اور خدا کا شکر بجا لاؤ۔ اس سے معلوم ہو تا ہے شکر کی توفیق ایسے لوگوں کو ملتی ہے جو حلال طریقے سے کماتے ہیں اور حرام و مشکوک کھانے اور پیسے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ’’ان کنتم ایاہ تعبدون‘‘ سے ثابت ہوتا ہے اگر خالص اللہ کی عبادت کرنی ہے تو حلال و حرام کے خلط سے دوری کی جائے، صرف حلال رزق کھانا چاہیے۔
حضرت شیخ الاسلام نے سورت المؤمنون کی آیت ۵۳ سے ایک اہم نکتے کو استنباط کرتے ہوئے مزید گویا ہوئے: مذکورہ آیت سے معلوم ہوا سارے انبیاء عقائد اور اصول میں متفق تھے، صرف فروعی احکام میں فرق پایا جاتا تھا، نیز آیت میں نزاع و فرقہ واریت کی ممانعت ہوئی ہے جو حرام کھانے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ جس قوم نے حرام خوری کو عادت بنائی تو اختلاف و نزاع اور خانہ جنگی اس کا مقدر ہے۔
انہوں نے کہا حرام جسم اور روح دونوں کو خراب کردیتاہے۔ حرام خوری تباہی و بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جو پیسہ حرام و ناجائز طریقے سے حاصل ہو یا اس میں حرام و مشکوک شامل ہو تو وہ حرام جگہوں پر خرچ ہوگا جیسا کہ رشوت و چوری میں جائے گا یا علاج و دوائی میں سارا مال خرچ ہوگا۔
عصر حاضر میں حرام خوری و مشکوک ذرائع آمدن کے عام ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ممتاز عالم دین نے کہا: آپ (ص) نے فرمایا ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ سب سود کا پیسہ کھائیں گے یا کم از کم انہیں اس حرام کا دہواں پہنچے گا۔ یہی حرام مال کا حال ہے اس زمانے میں؛ حرام خوری عام ہوچکی ہے، جو حرام سے بچتا ہے تو اسے ان ڈائرکٹ طریقے سے حرام کھانا پڑتا ہے۔ مثلاً جو بکرا آپ نے خریدا ہے ہو سکتا ہے چوری کا ہو۔ خاص طور پر جب چوری، رشوت ستانی اور سود لینا معاشرے میں عام ہوجائے تو حرام کے دہواں سے شاید ہی کوئی محفوظ رہے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ حلال خوری اور سچائی قیامت کے دن ترازوئے اعمال میں بہت ہی وزنی ہوں گں۔ ہمارے اسلاف انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرتے اور حرام یا مشکوک کھانے پینے کی اشیاء اور پوشاک سے سخت احتراز فرماتے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے تاکید کی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے تمام پہلووں اور شعبوں کے لیے ہمیں ارشادات و احکامات دیا ہے جن میں معاملات بھی شامل ہیں۔ رزق حلال کمانا اور جائز تجارت کرنا اسلام کی تعلیم ہے؛ کسی مسلمان کو تجارت میں دروغ گوئی یا جھوٹی قسم نہیں اٹھانی چاہیے۔ تجارت میں سچ بولنا بہت ضروری و اہم ہے۔ احادیث میں سچے تاجروں کے لیے بشارت اور جھوٹوں کے لیے وعید آئی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا مختلف محکموں کا ملازمین بھی دیانت داری اور سچائی کا مظاہرہ کریں، خیانت اور ذمہ داریوں میں غفلت سے اجتناب کریں۔ تمام مسلمان حرام سے دور بھاگ جائیں، کسی اور کا مال اس وقت تک نہ لیں جب تک آپ کو صاحب مال کی رضامندی کا یقین نہ ہو۔ یتیموں کے مال کھانے سے بچیں؛ بہنوں کا، بیویوں کا اور بھائی ایک دوسرے کے اموال ہتھیانے سے سخت دوری کریں، بیت المال، مساجد و مدارس کے پیسوں اور متعلقہ اموال میں خیانت نہیں کرنی چاہیے، جو مسجد و مدرسہ کا پیسہ اپنی جیب میں ڈالتا ہے اور خیانت کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا عمل مال غنیمت میں خیانت کے مترادف ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ’’وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَة‘‘، مال غنیمت میں خیانت کرنے والا اس حال میں محشور ہوگا کہ چرایا گیا مال اس کی گردن پر ہوگا۔
اپنے خطبے کے آخری حصے میں شادی پارٹیوں میں سنت کی اتباع پر زور دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا ہماری شریعت میں نکاح ایک عبادت ہے، اسے حرام و ناجائز کاموں سے خراب نہیں کرنا چاہیے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ خواتین بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں، اگر ضروت پڑی تو مکمل پردے میں باہر نکلیں اور اپنے زیور و زینت نامحرم مردوں کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ صرف خواتین اس حوالے سے ذمہ دار نہیں بلکہ مردوں پر ذمہ داری آتی ہے اور بھائی، باپ اور شوہر کو خواتین کے پردے کا خیال رکھنا چاہیے، چونکہ یہ لوگ سرپرست و ذمہ دار ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں