’ مذہبی امور میں آزادی ہمارے لیے حیاتی اورمداخلت ناقابل برداشت ہے‘

’ مذہبی امور میں آزادی ہمارے لیے حیاتی اورمداخلت ناقابل برداشت ہے‘

نامور سنی عالم دین حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے دارالعلوم زاہدان کی بیسویں تقریب ختم بخاری میں شرکت کرنے والے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ایران میں مختلف مسالک و قومیتوں کے وجود کو ’’موقع‘‘ قرار دیا۔

ایران کے مختلف صوبوں سے زاہدان آپہنچنے والے ہزاروں فرزندان توحید کو خوش آمدید کہتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا ایران میں متعدد قومیتوں اور مسالک کے لوگ آباد ہیں، یہ تعدد افتراق و انتشار کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ ان تمام قومیتوں اور مسالک کے درمیان مشترکہ امر ’’اسلام‘‘ ہے۔ اسلام ہم سب کو اکٹھا کرتا ہے۔ بلکہ ہمارا خیال ہے تمام انسانوں میں انسانیت وجہ مشترک ہے۔ اس لیے ہم سب کے خیرخواہ ہیں۔
ڈیڑھ لاکھ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا میرے اصلی مخاطب ایرانی قوم ہے۔ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے ہم سب ایک ہی قوم کے افراد ہیں۔ مذہب میں اشتراک کے علاوہ ہمارا وطن بھی ایک ہے۔ اگر ایران کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچے تو ہم سب اس کا متحمل ہوں گے۔ ہمیں جس طرح اسلام پر فخر ہے اسی طرح ہمیں ایرانی ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی کامیابی و عزت اور ایران کی ہمہ جہت ترقی ہماری دلی تمنا ہے۔
انہوں نے کہا الحمدللہ ایران کی سنی برادری جو اکثر سرحدی علاقوں میں آباد ہے علیحدگی پسند نہیں ہے۔ ایرانی سنیوں نے ہمیشہ انقلاب کی حمایت کی ہے اور اتحاد و امن کی بہتری کے لیے کوشش کی ہے، آج کل جو بھائی چارہ اور اتحاد کی فضا دیکھنے میں آرہی ہے اس کے پیچھے سنی برادری کا اہم کردار ہے۔
عظیم سنی رہ نما نے مزید کہا ہم فخر سے کہتے ہیں کہ الحمدللہ اب تک اہل سنت ایران کسی ملک دشمن کے ہاتھ بکے نہیں اور ۔ان شاء اللہ۔ مستقبل میں بھی نہیں بکیں گے۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا اس عظیم اجتماع میں کسی پر تنقید نہیں کرنا ہے البتہ ایرانی اہل سنت کی بعض توقعات ومطالبات کو اسلامی جمہوریہ ایران سے پیش کرنا ہے۔

۱۔ مذہبی آزادی: مذہبی امور میں آزادی ہمارے لیے انتہائی اہم اور حیاتی ہے۔ ہمیں اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی ادارہ ہمارے قانونی و آئینی حقوق کو پامال کرکے ہمارے مدارس و مساجد کے امور میں مداخلت کرے یا باجماعت نماز پڑھنے سے ہمیں روک دے۔ تبلیغی جماعتوں کا راستہ نہیں روکنا چاہیے۔

۲۔ شیعہ و سنی برادریوں میں برابری: جیسا کہ شیعہ و سنی بھائی بھائی قرار دیے جاتے ہیں حقوق میں بھی سنی برادری کو برابر کے حقوق ملنے چاہییں۔ سنی شہریوں نے مختلف سرحدوں پر ملک کی حفاظت و دفاع کیلیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اس لیے انہیں برابری کی توقع ہے، عدل و انصاف کا معاملہ کرکے امتیازی سلوک کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ مختلف اداروں خاص کر مسلح افواج میں ان کی خدمات حاصل کرنی چاہیے۔

۳۔ بڑے شہروں میں با جماعت نماز کی اجازت:
سنی برادری کو ایران کے بڑے شہروں میں با جماعت نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہمارا عقیدہ ہے جس شہر یا قریہ میں با جماعت نماز کا اہتمام نہ ہو وہاں شیطان مسلط ہوتا ہے۔
ہم نے ہمیشہ اتحاد کیلیے کوشش کی ہے اور کبھی بھی نظام مخالف عناصر کیساتھ سازشوں میں شریک نہیں ہوئے۔ اگر چہ سنی برادری میں بعض انتہا پسند افراد موجود ہیں لیکن شیعہ برادری کے شدت پسند عناصر زیادہ ہیں، دونوں کا تعلق اہل سنت اور اہل تشیع کمیونٹیز سے نہیں ہے۔

۴۔ حکام کی فراخدلی: ہمیں توقع تھی کہ متعلقہ حکام اس جلسے کے انعقاد کے سلسلے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرتے اور ہمارے بہن بھائیوں کو دیگر صوبوں سے شرکت کے لیے زاہدان آنے میں مسئلہ نہ ہوتا۔ افسوس کی بات ہے کہ تقریب کے مہمانوں حتی کہ بعض مقررین کو زاہدان آنے سے زبردستی روک دیا گیا۔ ہمیں امید تھی کہ غیر ملکی مہمانوں کو بھی شرکت کی اجازت ملتی مگر ایسا نہین ہوا۔

۵۔ مقدسات کا احترام: اہل سنت ہرگز شیعہ مقدسات کی توہین نہیں کرتے، چونکہ بعض شیعہ مقدسات مثلاْ اہل بیت ہماری مقدس شخصیات بھی ہیں، شیعہ برادری سے بھی توقع ہے کہ صحابہ کرام اور اہل سنت کی دیگر مقدسات کا احترام کرکے گستاخی سے گریز کرے۔

آخر میں مولانا عبدالحمید نے تاکید کی افتراق و انتشار کے ممکنہ اسباب سے فریقین گریز کریں۔ ہم اپنے مطالبات کو قانونی طریقے سے مطالبہ کریں گے۔ انہوں نے علمائے کرام، اساتذہ و طلباء ، اراکین پارلیمنٹ اور تمام مشارکین کا شکریہ ادا کیا جو اس تقریب پر نور میں شریک ہوئے اور متعدد ملکی و غیر ملکی مہمانوں کی آمد پر حکومتی رکاوٹ کو قابل افسوس قرار دیا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں