تیونس: معزول صدر بن علی اور ان کی اہلیہ کو 35، 35 سال قید کی سزا کا حکم

تیونس: معزول صدر بن علی اور ان کی اہلیہ کو 35، 35 سال قید کی سزا کا حکم

تیونس(ایجنسیاں) عرب ملک تیونس کی ایک عدالت نے سعودی عرب میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے سابق معزول صدر زین العابدین بن علی اوران کی اہلیہ لیلیٰ طرابلسی کو ان کی عدم موجودگی میں 35 سال قید اور بھاری جرمانوں کی سزاؤں کا حکم دیا ہے۔ سابق صدر اور ان کی اہلیہ کو یہ سزائیں قومی دولت لوٹنے کے الزامات کے دی گئی ہیں۔ العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق زین العابدین بن علی کے خلاف مقدمہ کی سماعت کل پیرکو تیونس کی ایک مقامی عدالت میں شروع ہوئی تھی۔ عدالت کے جج مسٹر جسٹس تحامی الحافی کی سربراہی میں بنچ نے مقدمے کی پہلے ہی سماعت میں کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بن علی اور ان کی اہلیہ کو 35 ،35 سال قید کی سزاکا حکم دیا۔ اس موقع پر عدالت نے قومی دولت لوٹنے پرسابق صدر کو 25 ملین یورو جبکہ ان کی اہلیہ لیلیٰ طرابلسی کو 20.5 ملین یورو کے جرمانے کی سزاؤں کا بھی حکم دیا۔
عدالت نے اسی نوعیت کے کچھ دیگرمقدمات کے لیے سماعت کی تاریخ 30 جون مقررکی ہے۔ عدالت نے سابق صدر کے وکلاء سے کہا ہے کہ وہ پیر کے روز عدالت کے فیصلے پر اپنے موکل کے دفاع میں دلائل دے سکیں گے۔
خیال رہے کہ تیونس میں سابق صدر کے خلاف عدالتی کارروائی کی تیاریاں کئی ماہ سے جاری تھیں تاہم یہ امر وکلاء دفاع کے لیے بھی غیر متوقع ہے کہ عدالت نے پہلی ہی سماعت میں سابق صدراور ان کی اہلیہ کوسزائیں سنائی ہیں۔
قبل ازیں وکلاء دفاع نے عدالت سے مقدمے کی سماعت کچھ عرصے کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ سابق صدرپرلگائے گئے کرپشن کےالزامات سے متعلق چھان بین کرسکیں۔ ان الزامات میں قومی خزانے سے نقدی چوری کرنے، ہیرے جواہرات لوٹنےاور انہیں بیرون ملک لے جانے اور صدارتی محل میں ناجائز اسلحہ رکھنے جیسے الزامات خاص طور پر شامل ہیں۔

وُکلاء کا ردعمل
دوسری جانب تیونس میں سابق صدر زین العابدین بن علی کے خلاف عدالت کے فیصلے پرملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ العربیہ کے نامہ نگار کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض وکلاء نے عدالت کے فیصلے کو عجلت پر مبنی قرار دیا ہے۔
پہلی ہی سماعت میں سزا کے فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ کیا ہے اور وکلاء دفاع کے پینل کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ عدالت کے عُجلت میں کیے گئے فیصلے سے سزاء کے منصفانہ اور غیر منصفانہ ہونے بارے کئی قسم کے سوالات نے بھی جنم لیا ہے۔
فیصلے پر بعض ماہرین قانون نے اطمینان کا بھی اظہار کیا ہے اور اسے آئین اور قانون کے مطابق درست اورمنصفانہ قراردیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر رہے کہ تیونس کے سابق صدرکے خلاف کرپشن کے مجموعی طور پر 93 مقدمات قائم کیے گئے تھےجبکہ ان کے خلاف جنگی جرائم اور فوجی نوعیت کے دسیوں مقدمات الگ سے قائم کیے جارہے ہیں جن کی سماعت ہونا ابھی باقی ہے۔ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے قتل اور احتجاج کے دوران کریک ڈاؤن کے مقدمات ثابت ہونے کی صورت میں سابق صدر کو پھانسی کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں