شامی فوج میں بغاوت بشار الاسد کے زوال کا پیش خیمہ ہے: عسکری ماہر

شامی فوج میں بغاوت بشار الاسد کے زوال کا پیش خیمہ ہے: عسکری ماہر

دمشق(العربیہ ڈاٹ نیٹ) شام میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر گولیاں چلانے سے انکار کر کے فوج سے الگ ہونے والے افسران اور اہلکاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین نے صدر اسد کے گرد و پیش فوج کے ٹوٹتے حصار کو ان کے اقتدار کے زوال کی سب سے بڑی علامت قرار دیا ہے۔
مصرکے ایک سابق فوجی افسر اور دفاعی وعسکری امور کے ماہر بریگیڈیئر جنرل ریٹائرڈ حسین سویلم نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شامی فوج میں پھوٹ اس بات کی بڑی واضح نشانی ہےکہ صدر اسد کا سب سے مضبوط تر ہتھیار بھی اب عوامی احتجاج کے سامنے کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ اس کا حتمی نتیجہ وہی ہوگا جو لیبیا میں کرنل قذافی کے ساتھ ہوا۔ ان کی مسلح افواج کی بڑی تعداد نے سولین پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا اور اب وہ مظاہرین کی جانب سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ کرنل قذافی کے پاس صرف مخصوص چند ایک فوجی بریگیڈ باقی رہ گئے ہیں۔ شامی فوج میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ اسی تواتر کےساتھ جاری رہا تو صدر بشار الاسد کو بھی اسی طرح کی کیفیت سے دو چار ہونا پڑے گا جس سے کرنل قذافی اس وقت دوچار ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں مصری دفاعی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ آٓخر کار صدر بشار الاسد کے پاس صرف علوی اہل تشیع کے چند ایک بریگیڈ اور کچھ دوسری فوجی بٹالینز رہ جائیں گی جو براہ راست ان کے بھائی جنرل ماہر الاسد کے کمانڈ میں کام کر رہی ہیں۔ ان میں بریگیڈ 4 اور صدر کا اسپیشل سیکیورٹی سکواڈ شامل ہیں۔
حسین سویلم کا کہنا تھا کہ شامی فوج میں صدر بشار الاسد کے ساتھ فوج کا مسلکی تعلق نہ ہوتا تو فوج میں اس تیزی سے پھوٹ پڑتی کہ دنوں میں فوج تتر بتر ہو جاتی۔ صدر کے حکم پر اگر فوج لڑ رہی ہے تو اس کا ایک بڑا محرک فوج میں شیعہ ازم بھی ہے جو فوج کو صدر کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔
دفاعی تجزیہ نگار نے شامی فوج کی جانب سے سولین پر گولی چلائے جانے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ صدر بشار الاسد کی حکومت نے تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا ہے کہ انہوں نے فوج کو مظاہرین پر طاقت کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ شام میں گولان کی پہاڑیوں پر 37 سال سے اسرائیل کا قبضہ ہے لیکن آج تک کہیں یہ خبر نہیں آئی کہ بغیر کسی وجہ کہ اسرائیلی قابض فوج نے گولان میں شہریوں پر گولیاں چلائی ہوں۔

جنگجوؤں کا تعاقب قتل عام کا جواز
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق شامی فوج سے الگ ہونے والے افسران اور اہلکاروں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اُنہیں اعلیٰ کمان کی جانب سے یہ ہدایت کی جاتی تھی کہ تمہاری جنگ مسلح جنگجو گروپوں کے خلاف ہے۔ فلاں علاقے میں گھروں کے اندر مسلح جنگجو چھُپے ہوئے ہیں۔ لہٰذا فلاں شہر میں گھر گھر تلاشی کی کارروائیوں میں ہر شخص کو قتل کر دیا جائے۔
فوج سے الگ ہونے والے ایک سارجنٹ احمد ریاض نے بتایا کہ فوج کی فائرنگ سے بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب ان سے کہا گیا کہ فلاں شہر کو جنگجوؤں سے پاک کر دو، سامنے جو بھی نظر آئے اسے گولیوں سے بھسم کر دو۔ ہم ایسا ہی کرتے رہے ۔ چنانچہ ہماری فائرنگ سے نہتے لوگ مرتے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ جب ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم نہتے لوگوں پر گولیاں چلا رہے ہیں، ان میں جنگجو کوئی بھی نہیں کیونکہ کسی کی طرف سے ان کی مزاحمت نہیں کی جا رہی، تو ہم فوج کو وہیں چھوڑ دیا۔
احمد ریاض مزید کہتے ہیں کہ فوج کی اعلیٰ کمان کی طرف سے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے اجتماعی قبرستان کی خبریں سرا سر بے بنیاد تھیں۔ شام میں کوئی عسکریت پسند گروپ نہیں تھا۔ جس نے فوجیوں کو قتل کیا ہے۔ یہ حکومت کا محض ایک دھوکہ اور فراڈ تھا جس کے تحت وہ دنیا کے سامنے سولین کو قتل کرنے کا جواز پیش کر رہی تھی۔
رپورٹ کے مطابق فوج سے الگ ہونے والے مختلف عہدوں کے فوجی اہلکاروں نے برملا اعتراف کیا کہ انہوں نے درعا، بنیاس۔ جسرالشغور، حمص اور حماۃ جیسے شہروں میں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ یہیں سے فوج میں بغاوت پھوٹی اور بیک وقت فوج کے 50 افسر اور اہلکار الگ ہو مظاہرین میں شامل ہو گئے۔
فوج سے الگ ہونے والے ایک فوجی افسر حسین ھرموش نے سوشل نیٹ ورکنگ کی ویڈیو ویب سائٹ “یو ٹیوب” پر ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے، جس میں انہوں نے فوج سے علاحدگی کی بنیادی وجوہات سویلین پر بلا جواز گولیاں چلانا بتایا ہے۔
حسین ھرموش بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اعلیٰ کمان کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ جسر الشغور میں ایک ایک گھر میں عسکریت پسند چھپے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی زندہ نہیں بچنا چاہیے۔ لیکن جب انہوں نے وہاں آپریشن شروع کیا تو کوئی ایک بھی عسکریت پسند نہیں ملا۔ مرنے والے تمام بے گناہ تھے، بچے تھے اور عورتیں تھیں، جن کے ہاتھوں میں لاٹھی تک نہ تھی۔

فتح شامی قوم کی دہلیز پر
شام میں مظاہرین پر ریاستی فوج کے تشدد میں جوں جوں اضافہ ہو رہا ہے، عالمی اور علاقائی سطح پر شامی عوام کے ساتھ ہمدردی کے جذبات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ عربی زبان کے آن لائن اخبار” الہد ھد” کے چیف ایڈیٹر محی الدین الاذقانی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “شام میں جو منظرنامہ ہم دیکھ رہے ہیں، یہ شامی قوم کی فتح وکامرانی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آخری درجے کے ریاستی تشدد کے باوجود مظاہرین کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اب سولین کی ہلاکتوں میں کمی آ رہی ہے۔
فوج میں بغاوت پیدا ہو چکی ہے اور صدر بشار الاسد کے مقربین ان سے ایک ایک کر کے الگ ہو رہے ہیں۔ یہ تمام قرائن بتاتے ہیں کی شامی قوم کو اب زیادہ دیر تک ریاستی جبر کے تحت دبایا نہیں جا سکتا۔ شامی قوم کی منزل اب بہت قریب ہے، عین ممکن ہے کہ چند دنوں یا ہفتوں میں صدر بشار الاسد کے اقتدار کا دھڑن تختہ ہوجائے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں عرب صحافی کا کہنا تھا کہ ہم اب اس خاموش اکثریت کے بولنے کے انتظار میں جو ابھی شام میں خاموش ہے۔ اس کی خاموشی ٹوٹتے ہی بشار الاسد کا نظام بکھر جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بشار الاسد چاہے کچھ بھی کریں اب شام کے عوام انہیں اپنے اوپر مسلط نہیں رکھنا چاہتے۔ اس کا ادراک صدر کے اردگرد “مفاداتی ٹولے” کو بھی بخوبی ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایک کر کے صدارتی کیمپ سے نکل رہے ہیں۔
محی الدین لاذقی نے صدر بشار الاسد پر زور دیا کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور اپنے بچاؤ کی فکر کرتے ہوئے فوج کو شہروں سے واپس بلائیں۔ ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ اقتدار سے علاحدگی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سویلین کو سپرد کر دیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں