شامی سکیورٹی فورسز کی مظاہرین پر فائرنگ، 16 افراد ہلاک

شامی سکیورٹی فورسز کی مظاہرین پر فائرنگ، 16 افراد ہلاک

دمشق(العربیہ ڈاٹ نیٹ ،ایجنسیاں)شامی سکیورٹی فورسز نے نماز جمعہ کے بعد حکومت کے خلاف مظاہروں میں شریک افراد پر فائرنگ کر دی ہے جس کے نتیجے میں سولہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
شامی حزب اختلاف نے نمازجمعہ کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف ملک گیر مظاہروں کی اپیل کر رکھی تھی اور ملک کے مختلف شہروں میں ہزاروں شامی شہریوں نے سرکاری سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ اور کریک ڈاٶن کارروائیوں کے خطرے کے باوجود مظاہروں میں شرکت کی ہے۔ نمازجمعہ کے بعد دارالحکومت دمشق، ساحلی شہر بانیاس ، جنوبی شہر درعا، وسطی شہر حمص، کردآبادی والے شہر قامشیلی ،عمودہ اور دوسرے شہروں اور قصبوں میں ہزاروں شہریوں نے صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہرے کیے اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔حمص میں نوجوان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں نے براہ راست فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں نوافراد جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہوئے ہیں۔
دوافراد دیرالزور میں مارے گئے ہیں۔ایک شخص ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب اور دو دمشق کے نواحی قصبے حرستہ میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ ترکی کی سرحد سے پینتالیس کلومیٹر دور واقع شہر معارۃ النعمان میں مظاہرین کے خلاف کارروائی کے لیے بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ایک لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں گذشتہ جمعہ کو مظاہرین کے خلاف کارروائی کے لیے پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا گیا تھا۔
حکومت مخالف مظاہرین نے اس جمعہ کے مظاہروں کو بیسویں صدی میں شام پر فرانسیسی قبضے کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے ایک علوی لیڈر صالح العلی کے نام سے موسوم کیا ہے۔ایک علوی شخصیت کے نام کا مطلب یہ ہے کہ بشارالاسد کے خلاف سنی اور علوی شیعہ دونوں ہی بر سرپیکار ہیں۔ واضح رہے کہ شام میں سنی آبادی کی اکثریت ہے لیکن وہاں علوی اقلیتی فرقے کی حکومت ہے اور صدراسد نے اپنے خاندان اور فرقے کے لوگوں کو اہم حکومتی عہدوں پر فائز کر رکھا ہے۔
شامی سکیورٹی فورسزنے حکومت مخالف تحریک کے ایک اور مرکز جسر الشغورکا محاصرہ کر رکھا ہے۔ شامی فوج نے گذشتہ اتوار کو اس پرچڑھائی کی تھی جس سے قبل ہی ہزاروں لوگ اپنا گھربار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب چلے گئے تھے اور پچاس ہزار آبادی والا شہر بالکل سنسان ہو چکا تھا۔گذشتہ چند ہفتوں کے دوران جسر الشغور اور دوسرے علاقوں سے کم سے کم نو ہزار شامی نقل مکانی کے بعد سرحد عبور کرکے ترکی کے علاقے میں چلے گئے ہیں اور پانچ ہزار شامی سرحد عبور کرکے لبنان کے علاقے میں داخل ہوئے ہیں۔
صدر بشارالاسد غیر مسلح مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کے حملوں کو روکنے کے لیے عالمی برادری کی اپیلوں کو مسترد کرتے چلے ارہے ہیں۔مختلف عالمی لیڈروں نے شامی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے وحشیانہ استعمال کی مذمت کی ہے۔
شام کی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی مارچ کے وسط سے پُرامن مظاہرین کے خلاف جاری کریک ڈاٶن کارروائیوں کے نتیجے چودہ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور دس ہزار سے زیادہ مطاہرین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔شام آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق اب تک خانہ جنگی کے نتیجے میں تین سو سے زیادہ فوجی اور پولیس اہلکار بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
درایں اثناء فرانس نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پُرامن مظاہرین کی آواز کو دبانے کے لیے کریک ڈاؤن کارروائیوں پر صدربشارالاسد کی حکومت کے خلاف مزید سخت پابندیاں عاید کرے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان برنارڈ ولیرو نے پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فرانس شام کے مزیدمالیاتی اداروں اور فرموں پر پابندیوں کا حامی ہے۔ترجمان کا کہنا ہے کہ نئی پابندیوں میں شامی حکومت میں شامل شخصیات سے وابستہ بنکوں اور نجی فرموں کو نشانہ بنایا جانا چاہیے۔انھوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب یورپی یونین شامی عہدے داروں اور ان کے ملکیتی اداروں پر مزید پابندیاں عاید کرنے پر غور کررہی ہے اور اس حوالے آیندہ سوموار تک کوئی فیصلہ متوقع ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں