زیرعلاج یمنی صدر عبداللہ صالح وطن واپس نہیں جائیں گے، سعودی حکام

زیرعلاج یمنی صدر عبداللہ صالح وطن واپس نہیں جائیں گے، سعودی حکام

صنعاء،طرابلس،دمشق(اے ایف پی،رائٹرز) سعودی اعلیٰ حکام نے جمعہ کو کہا ہے کہ یمن کے دارالحکومت صنعاء کے صدارتی محل میں گولہ باری میں زخمی ہونے والے یمنی صدر علی عبداللہ صالح جو ان دنوں ریاض کے اسپتال میں زیر علاج ہیں واپس یمن نہیں جائینگے۔ سعودی حکام نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ صدر صالح یمن واپس نہیں جائینگے تاہم یہ ابھی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے کہ وہ کہاں رکیں گے۔سعودی حکام کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ تجویز ہے کہ صدر صالح کو بالآخر سعودی عرب چھوڑ کر کسی اور ملک میں جانا ہوگا۔سعودی حکام نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آیاوطن واپس نہ جانے کا فیصلہ صدر صالح کا خود کا فیصلہ ہے۔
ادھر یمنی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ صدرمملکت سعودی عرب سے جلد وطن واپس آجائینگے۔یمن کے نائب وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ایوان صدر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر صالح آئندہ چند دنوں میں وطن واپس آجائینگے۔
ادھر شام میں صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے جمعہ کو ملک بھر میں مظاہرے کئے گئے اور ہنگامے دوبارہ پھوٹ پڑے،سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے 16شہریوں کو ہلاک کردیا۔
ادھر لیبیا کے شہر مصراتہ میں صدر معمر قذافی کی وفادار فوجوں نے گولہ باری کرکے 10 افراد کو ہلاک اور40کو زخمی کردیا۔
باغیوں کے ترجمان احمد حسن نے بتایا کہ راکٹ حملے میں ہلاک ہونے والے تمام لوگ عام شہری تھے۔ادھر لیبیا کے باغیوں نے قذافی حکومت کی طرف سے انتخابات کی پیشکش مسترد کر دی ہے امریکا نے کہا ہے کہ معمر قذافی کے دن اب گنے جا چکے ہیں جبکہ امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر کا وائٹ ہاؤس سے لیبیا میںآ پریشن کے حوالے سے سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے باغیوں کے ترجمان عبدالحفیظ غوغا نے کہا کہ وہ سیف الاسلام قذافی پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ الیکشن کا وقت اب گزر چکا ہے۔انہوں نیکہا کہ ان کے باغی فوجی اب طرابلس کے نواح میں ہیں اور وہ جلد لیبیا میں کرپشن اور ظلم کا خاتمہ کردیں گے۔ادھر شمالی لبنانی شہر میں شام حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہرے کے دوران دو متحارب گروپوں کے درمیان جھڑپوں میں 2افراد ہلاک اور2فوجی اہلکار سمیت9 زخمی ہوگئے۔
لبنان کے انتہائی حساس ساحلی شہروں باب ال تبانھے اور جبل محسن فسادات کو بڑھنے سے روکنے کیلئے فوجی2 اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں