’توحیدکے بعد والدین کے حقوق کاخیال رکھنا اہم ترین ہے‘

’توحیدکے بعد والدین کے حقوق کاخیال رکھنا اہم ترین ہے‘

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے جمعہ رفتہ کے خطبے میں اسلام میں والدین کے مقام اور ان کے حقوق کی اہمیت پر گفتگو کی۔
ہزاروں فرزندان توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا اسلام نے دیگر مذاہب کے بہ نسبت بہت زیادہ والدین اور عام لوگوں کے حقوق پر زور دیا ہے۔ حتی کہ اسلام نے جانوروں اور ماحول کی حفاظت اور ان کے حقوق پر تاکید کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے حقوق کی پاسداری کے بغیر انسان دنیا میں کامیاب ہوسکتا ہے نہ آخرت میں۔ انسان کے ذمے اللہ تعالی کا سب سے بڑا حق اس کی بلا شرکت غیر عبادت کرنا ہے۔ توحید کے بعد انسان کے حقوق کا تذکرہ قرآن پاک میں آیا ہے اور سب سے پہلے والدین کے حقوق کی بات کی گئی ہے۔ قرآن نے والدین سے احسان کرنے کا حکم دیا ہے اور ایک مقام پر انہیں تکلیف پہنچانے سے منع کیا ہے، حتی کہ ماں باپ کو ’’اف‘‘ تک کہنے سے منع کیا ہے۔
قرآن کریم کا حکم ہے ’’و قل لھما قولا کریما‘‘ نرم لہجے میں ان سے بات کیا کرو۔ اسی طرح ان کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔
جامع مسجد مکی زاہدان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے مزید کہا قرآن و سنت نے توحید باری تعالی کے بعد ماں باپ کے حقوق کو سب سے اہم حق قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شرک کے بعد والدین کے حقوق کی پامالی کو سب سے بڑا گناہ قرار دیا۔ کسی شخص کی جہنم رسید ہونے کیلیے یہی گناہ کافی ہے۔
احادیث مبارکہ میں آتا ہے ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد کیلیے اجازت طلب کرنے آیا، آپ (ص) نے پوچھا کیا تمہارے والدین حیات ہیں۔ تو آدمی نے کہا جی ہاں، نبی کریم (ص) نے فرمایا: ’’ففیہما فجاہد‘‘، آپ کا جہاد ان کی خدمت ہے۔
اگر ماں باپ کو ضرورت ہو تو ان کی خدمت بہترین جہاد ہے۔ آج کل بہت مشاہدہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ اس حال میں دعوت و تبلیغ، طلب علم یا جہاد کیلیے جاتے ہیں کہ ان کے والدین بے سہارا ہوتے ہیں۔ یہ عبادات انتہائی فضیلت والی ہیں مگر اس وقت جب شرائط کیساتھ ہوں۔ اگر جہاد فرض کفایہ ہو تو والدین کی اجازت ضروری ہوتی ہے لیکن فرض عین کی صورت میں کہ ہر فرد پر جہاد فرض ہوتا ہے اجازت طلب کرنا ضروری نہیں ہے۔
اپنے خطبے کے دوسرے حصے میں حضرت شیخ الاسلام نے بلوچستان میں دینی مدارس کے تعلیمی سال کے اختتام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہمارے مدارس تعلیمی سال کے اختتام پر فارغ التحصیل طلباء کے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔
صوبے میں آخری تقریب دارالعلوم زاہدان کے زیر اہتمام منعقد ہوتی ہے جو ہر سال ستائیس رجب کو اس کا آغاز ہوتا ہے۔
خطے میں امن و بھائی چارے کے فروغ کے سلسلے میں ان تقاریب کا کردار انتہائی مثبت و بارآور ثابت ہوا ہے۔ ان تقاریب کی وجہ سے عوام دین سے قریب تر ہو چکے ہیں، اس وجہ سے کسی کو تقریب ختم بخاری کے انعقاد سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
نامور سنی عالم دین نے بات آگے بڑھائی کہ بعض عناصر کو شیطان وسوسہ کرتا ہے چنانچہ دارالعلوم زاہدان کی سالانہ تقریب و جامع مسجد مکی کی تعمیر نو کے لیے باہر ملکوں سے فنڈرز لینے کا الزام لگاتے ہیں۔ پوری صراحت کیساتھ کہتا ہوں ہم کسی حکومت و ریاست سے فنڈز قبول نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ایرانی حکومت کی مالی مدد قبول کرتے جس کے بیت المال میں ہمارا حق بھی ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے مساجد شیعہ برادری کی ہوں یا سنی برادری کی، سب عوام کے پیسوں سے تعمیر ہونی چاہییں حکومتوں کے فنڈز سے نہیں۔ حکومتوں کا مقصد اللہ کی رضامندی نہیں ہوتا بلکہ ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں