مولاناسید ابو الحسن علی ندوی، ایک بلندنگاہ عبقری شخصیت

مولاناسید ابو الحسن علی ندوی، ایک بلندنگاہ عبقری شخصیت

گذشتہ ایک صدی میں عالمِ اسلام نے جن بلند مرتبہ علمائے دین،جیّد محققین اور معتبر مورخین کو پیدا کیا، ان میں مفکّرِاسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کسی تعریف و تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ مولانا علی میاں ندوی اسلامی علوم و فنون بالخصوص اسلامی تاریخ کے عظیم ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ اُردو زبان و ادب کے والہ و شیدائی بھی ہیں ۔ مولانا کے مضامین ، مقالات، ریڈیائی تقاریر ، مواعظ اور خطبات کتابی شکل و صورت میں منظر عام پر آچکے ہیں ۔ مولانا مرحوم کو خوش قسمتی سے دنیا کے متعدد ممالک کی سیاحت اور سفر کرنے  کا کافی موقعہ میسر ہوا ہے، اور انہوں نے بالخصوص سیاحت کے دوران عالم اسلام کو قریب سے دیکھا ہے۔ وہ جہاں بھی گئے وہاں اس ملک کے باضمیر انسانوں ، دانشوروں ، ادیبوں اور عالموں سے انہوں نے بے لاگ باتیں کیں ۔ اس کی خدمات اور کارناموں کا فراخی قلب و ذہن سے اعتراف کیا اور اس کے اصل مرض کی نشاندہی کی۔ سب سے پہلے وہ حجاز تشریف لے گئے جو ایک مسلمان کے ایمان کا سرچشمہ اور مرکزِ رشد و ہدایت ہے وہاں انہوں نے بین العالم و جزیرۃ العرب کے نام سے ریڈیو پر تقاریر کیں ۔ جب مولانا مصر کے سفر پر روانہ ہوئے تو اس ملک کی قدیم تہذیب ، تاریخ ، تمدن اور اسلامی ثقافت و ہدایت کے مراکز سے مخاطب ہو کر ’’ اِسمعی یا مصر‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال فرمایا۔ کویت تشریف لے گئے تو اِسمعی یازھرۃ الصحرا کے عنوان سے تلخ و شریں باتیں اس قوم کو سنائیں ۔  ۱۹۸۱ ؁ء میں کشمیرتشریف لائے تو ’’تحفۂ کشمیر‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ، جس میں کشمیر کا ذکر بڑے دلنشین پیرائے میں کیا ہے اور باشندگانِ کشمیر کو دعوتِ فکر و عمل دے کر اس مظلوم قوم کو ذہنی اور دینی اعتبار سے بیدار ہونے کی تلقین فرمائی۔ مولانا جہاں جہاں بھی گئے اپنے ضمیر کی بات کھل کر کہی اور دعوت و اصلاح کا فریضہ اورامر بالمعروف و ہی عن المنکر کا قرآنی حکم صاف صاف الفاظ میں حاضرین وقارئین تک پہنچایا۔

مولانا ابوالحسن علی ندوی اور ندوۃ العلماء سے منسلک اکثر علماء شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کی فکر اور ان کے آفاقی نظریات سے بہت متاثر رہے ہیں ۔ مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا عبدالسلام ندوی اور مولانا مسعود عالم ندوی کے اقبال کے ساتھ تعلقات اور عقیدت و احترام کا اندازہ ان کی تحریروں سے لگایا جا سکتا ہے ۔ اقبال کا نام ۱۹۳۰ ؁ء سے پہلے ہی عرب دنیا میں متعارف ہو چکا تھا اور کئی عرب ادیبوں نے اقبال کی نظموں اور غزلوں کا ترجمہ بھی کیا  تھا۔ ان کی ملّی، قومی اور آفاقی افکار و نظریات پر عمدہ تجزئیے عرب رسائل و جرائد میں آچکے تھے۔ اقبال مصر ، فلسطین اور دیگر ممالک کا سفر کر چکے تھے۔ لندن میں راونڈ ٹیبل کانفرنس سے فراغت کے بعد اقبال جب براستۂ مصر وطن لوٹ رہے تھے تو مصر میں علماء اور شعرأ نے ان کا پر جوش استقبال کیا ۔ اس وقت مصر کے مشہور روحانی بزرگ ابو صالح محمد متقی نے اقبال کو اپنے گھر مدعو کیا اور اپنے معتقدین کے سامنے ان کا تعارف بڑے ہی شاندار الفاظ میں کرایا۔ ۱۹۵۰ ؁ء کے اوائل میں مشہور مصری ادیب ڈاکٹر عبدالوہاب عزام نے عرب دنیا میں فکر اقبال کو متعارف کرانے میں ایک گراں قدر حصہ ادا کیا تھا اور انہوں نے عربی میں محمد اقبال -سیرتہ و فلسفہ و شعرہ کے عنوان سے ایک کتاب لکھ کر اقبال کی شاعری کا تجزیہ کیا تھا اور ان کے افکار کی تشریح و توجیہہ کی تھی۔

عزام، امین شوقی اور دیگر عرب ادیبوں نے فنی محاسن کے اعتبار سے کلام اقبال کا شاندار اور قابلِ قدر تجزیہ کیا، لیکن عالم عرب میں اقبال کے پیغام ، فکر ،، روح اور مشن کو متعارف کرانے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مثالی رول ادا کیا ہے۔ مولانا نے ’’روائع اقبال‘‘ لکھ کر اقبال کے فکری سرچشموں ، ان کے کلام میں موجزن روحانی قدروں ، ان کے مشرقی مزاج ، مذاہب کی صالح روایات کے ساتھ ان کی وابستگی مغرب پر ان کی کڑی تنقید کو پورے شرح وبسط کے ساتھ واضح کیا۔ علامہ اقبال کی شاعری کے ساتھ اپنی دلچسپی اور شیفتگی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے مولانا ندوی اپنی سرگذشت کاروان زندگی‘‘ میں لکھتے ۔

’’۱۹۳۴ ؁ء -۱۹۳۵ ؁ء تک میں علامہ اقبال کے کلام و پیام کا زیادہ گرویدہ و شیفتہ نہیں تھا۔ میں اس وقت صرف بانگِ درا سے آشنا تھا۔ میں نے ان کی ’’چاند‘‘ والی نظم کا عربی میں ترجمہ کیا تھا اور انہوں نے مئی ۱۹۲۹ ؁ء میں میرے پہلے سفر لاہور کے موقع پر اس کو ملاحظہ بھی فرمایا تھا، لیکن جب میری نظر ان کے بعد کے کلام ’’ضرب کلیم‘‘ پر پڑی ، جو کہ میں لکھنو کے مکتبۂ دانش محل سے خرید کر لے آیا تھا تو میری آنکھیں کھل گئیں اور میں ان کے کلام کی بلندی اور تاثیر سے مسحور ہو گیا۔ لیکن ’’بالِ جبریل ‘‘ پڑھ کر اس سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس میں خیالات کی رفعت و جدت کے ساتھ ترنّم اور حلاوتِ جرس زیادہ تھی ۔ پھر ـ’’اسرارِ خودی‘‘ اور ’’رموز بیخودی‘‘ ، ’’مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘، ’’پیام مشرق‘‘ اور  بعد میں ’’جاوید نامہ‘‘ اور ’’زبورِ عجم‘‘  کا مطالعہ کیا اور ذہن و قلب نے ان کا وہ اثر قبول کیا جو کسی معاصر شخصیت کا (جہاں تک ادب و شاعری و فکر کا تعلق ہے ) اثر قبول نہیں کیا تھا‘‘۔

برّ صغیر میں اقبال کی شخصیت کی ساخت اورہئیت پر بہت سارے علمأ کا اعتراض تھا کہ اقبال گفتار کے غازی تو ہیں لیکن عملی زندگی میں وہ معیار پر پورانہیں اتر سکے۔ اس اعتراض میں وزن بھی تھا اور اس کا خود اقبال نے اعتراف بھی کیا تھا۔

اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا غازی یہ تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا

اس حقیقت بیانی میں  وہ ریا کاری اور منافقانہ رنگ نہیں ہے جو مذہبی علماء کے بڑے طبقے میں موجود ہوتا ہے۔ وہ خود قرآنی الفاظ میں لم تقولون ما لا تفعلون کے زمرے میں آجاتے ہیں اور ایمان و ایقان کے کسی عظیم پیکر میں معمولی سی کوتاہی پا کر ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں ۔ مولانا علی میاں ندوی کے عالم باعمل، متّقی اور مورخِ اسلام ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں  ہے۔ ان کی پسند و ناپسند کا معیار فقط شریعت ہی ہے اور اکابرین اُمت میں مولانا نے جس شخصیت کا تذکرہ عقیدت کے جذبات کے ساتھ کیا ہے، ان میں علامہ اقبال کا نام خاصہ اہم ہے ۔ فرماتے ہیں ۔

’’اقبال کو پسند کرنے کے اسباب بہت سے ہو سکتے ہیں اور ہر شخص اپنی پسند کے مختلف وجوہ بیان کر سکتا ہے۔ انسان کی پسند کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی فن پارے کو اپنے خوابوں کا ترجمان اور اپنے دل کی زبان پانے لگتا ہے۔ انسان بہت خود بین و خود پسند واقع ہوا ہے۔ اس کی محبت اور نفرت، تمناؤں اور دلچسپیوں کا مرکز و محور بڑی حد تک اس کی ذات ہی ہوتی ہے۔ اس لئے اسے ہر وہ چیز اپیل کرتی ہے جو اس کی  آرزوؤں کا ساتھ دے سکے اور اس کے احساسات سے ہم آہنگ ہو جائے۔ میں بھی اپنے کو اس کلّیہ سے الگ نہیں کرتا، میں نے کلام اقبال کو عام طور پر اسی لئے پسند کیا ہے کہ وہ میری پسند کے معیار پر پورا اترتا اور میرے جذبات و محسوسات کی ترجمانی کرتا ہے، وہ میرے فکر و عقیدہ ہی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں بلکہ میرے اثر میرے شعور اور احساسات کا ہمنوا بن جاتا ہے۔ سب سے بڑی چیز جو مجھے ان کے فن کی طرف لے گئی وہ بلند حوصلگی‘ محبت اور ایمان ہے، جس کا حسین امتزاج ان کے شعر اور پیغام میں ملتا ہے اور جس کا ان کے معاصرین میں پتہ نہیں لگتا ۔ میری پسند اور توجہ کا مرکز وہ اسی لئے ہیں کہ وہ بلند نظری ، محبت اور ایمان کے شاعر ہیں ۔ ایک عقیدہ ، دعوت اور پیغام رکھتے ہیں  اور مغرب کی مادّی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد اور باغی ہیں ۔ وہ اسلام کی عظمت رفتہ اور مسلمانوں کے اقبالِ گذشتہ کے لئے سب سے زیادہ فکر مند ، تنگ نظر قومیت و وطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت و اسلامیت کے عظیم داعی ہیں ‘‘۔

(کاروان زندگی ص- نمبر ۱۸۵-۱۸۶،ناژر مکتبہ اسلام ، ۳۷ گائن روڑ لکھنو )

مولانا علی میاں کا طرزِ اسلوب علمی ، ادبی اور تمثیلی رنگ بدل بدل کر قارئین کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ان کے متعدد مضامین عالم تخیل اور فکر و وجدان کی ان کیفیات سے سرشار ہیں ، جو عموماً شعرااور صوفیا و مشائخ پر طاری ہوتی ہیں ۔ مولانا کسی نقطۂ نظر ، فلسفہ زندگی یا کسی شاعر کے افکار کو اکثر محاکات اور تمثیلات کی روشنی میں پیش کرتے ہیں ۔ اسی قسم کا ایک مضمون ’’اُمت کے وفود آقا صلى الله عليہ وسلم کے حضور میں ‘‘ کے زیر عنوان اکابرین امت ، ادبا ، علما، اصفیاء اور امرأ کی جماعتوں کو عالم تخیل ووجدان میں رسول اکرم صلى الله عليہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضری دیتے ہوئے پیش کیا ہے اور انکو درود و سلام کے گلدستے نچھاور کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ مسجدِ نبوی کے سامنے سے یہ وفود گزر رہے تھے اور میں ان سب پر نظریں مرکوز کئے ہوئے ان کی گذارشات ، احوال ، اقوال، اور کیفیات کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ امت مسلمہ میں سابق بادشاہوں کا گروہ عرض درودوسلام  پیش کرنے حاضر ہوا۔ لکھتے ہیں ’’میں ان بادشاہوں کی طرف متوجہ تھا، میری نظریں ان کے خاموش اور با ادب چہروں پر  مرکوز تھیں ۔ میرے کان ان کے ان پُر خلوص نیاز مندانہ الفاظ پر لگے ہوئے تھے، جو اس سے قبل میں نے ان سے کسی موقع پر نہیں سنے تھے کہ ایک اور جماعت داخل ہوئی اور ان بادشاہوں اور فرمانرواؤں کی پرواہ کئے بغیر ان کی صفوں سے ہوتی ہوئی سامنے آگئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان بادشاہوں کے رعب و دبدبہ اور قوت و اقتدار کا ان پر کوئی اثر نہیں ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یا تو یہ شاعر ہیں یا انقلابی ، یہ اندازہ غلط نہ تھا، اس لئے کہ یہ جماعت ان دونوں پر مشتمل تھی۔ اس میں جمال الدین افغانی ، امیر سعید حلیم ، مولانا محمد علی جوہر ، شیخ حسن البناء کے پہلو بہ پہلو ترکی کے مشہور شاعر محمد عاکف اور ہندوستان کے ڈاکٹر محمد اقبال بھی موجود تھے۔ ترجمانی کے لئے ان لوگوں نے آخر الذکر ( اقبال) کا انتخاب کیا اور لائق ترجمان نے ان الفاظ میں اپنے جذبات عقیدت کا اظہار کیا ‘‘۔

’’ خواجۂ کونین، سالارِبدروحنین ، یارسول اللہ صلى الله عليہ وسلم میں آپ سے اس قوم کی شکایت کرنے آیا ہوں ، جو آج بھی آپ کے خوانِ نعمت کی ریزہ چین ہے۔ اور آپ کے سایۂ رحمت کے سوا اس کو کہیں پناہ نہیں ملتی اور آپ ہی کے لگائے ہوئے باغ کے پھل کھا رہی ہے ۔۔۔۔۔ آپ نے جن بتوں سے کعبہ کو پاک کیا تھا ، وہ آج مسلمان قوموں کے سروں پر نئے نئے ناموں اور نئے نئے لباسوں میں پھر مسلط کئے جا رہے ہیں ۔ مجھے عالم عربی کے بعض حصوں میں جن کو آپ کا مرکز اور قلعہ ہونا چاہئے تھا ، ایک عام بغاوت نظر آرہی ہے، لیکن کوئی فاروق رضی اللہ عنہ نہیں ۔ فکر و ذہنی ارتداد کی آگ تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور کوئی ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں ۔ جو اس کے لئے مردانہ وار میدان میں آئے اور اس آگ کو بجھائے۔

میری طرف سے اور  میرے تمام ساتھیوں کی طرف سے جن کی نمائندگی اور ترجمانی کا فخر مجھے حاصل ہوا، دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے عقیدت و احترام کے جذبات میں ڈوبے ہوئے سلام کا تحفہ قبول ہو، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اور اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ہم ان تمام رہنماؤں سے بری اور بیزار ہیں ۔ جنہوں نے اپنا رُخ اسلام کے قبلہ سے پھیر کر مغرب کی طرف کر لیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آپ سے اور آپ کے دین سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا ہے۔ ہم آپ کی وفاداری اور اطاعت شعاری کا پھر اعلان کرتے ہیں اور جب تک زندگی ہے‘ اسلام کی اسی رسّی کو انشاء اللہ مضبوطی سے پکڑیں رہیں  گے۔ ‘‘

(کاروان مدینہ ، ص ۸۹ ، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

مولانا علی میاں نے اپنی کتاب ’’روائع اقبال‘‘ ترجمہ ’’نقوش اقبال‘‘ میں اقبال کی اہم نظموں پر رواں تبصرہ کیا ہے ۔ ان نظموں کے استعاراتی اور تلمیحاتی نظام سے بحث کرنے کے بجائے مولانا نے نظموں کے مرکزی خیالات اور ان خیالات کے ماخذ و منبع سے گفتگو کی ہے۔ نظموں اور غزلوں میں دینیات ، الٰہیات اور مسائل فقہ و اجتہاد سے جو امور منسلک ہیں ، ان پر مولانا نے عالمانہ رائے زنی کی ہے ۔ ’روائع اقبال‘‘ پر مفصّل پیش لفظ اُردو زبان و ادب کے صفِ اول کے ادیب و محقق پروفیسر رشید احمد صدیقی نے تحریر کیا ہے ۔ مولانا کی اقبال شناسی کا جائزہ لیتے ہوئے صدیقی صاحب لکھتے ہیں :

’’سید صاحب کے ایک متبحّراور روشن خیال عالم دین اور شعر و ادب کے مبصّر ہونے کی حیثیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، موصوف نے اقبال کی تائید و ترجمانی جس خوبی سے کی ہے‘ اس سے میرے ایک دیرینہ خیال کی تصدیق ہوتی ہے کہ اقبال کا کلام ہمارے لئے اس صدی کا علم کلام ہے ، جو ایک نا معلوم اور طویل مدت تک تازہ کار رہے گا، اس لئے کہ وہ ایک عظیم شاعری میں ڈھل چکا ہے۔ اسلامی عقائد‘ شعائر اور روایات کا جس عالمانہ، عارفانہ اور شاعرانہ انداز سے اپنے بے مثل کلام میں اقبال نے وکالت کی ہے، اس سے مسلم معاشرہ حیرت انگیز طور متاثر ہوا ہے ، ایسی صحت مند اور با مقصد بیداری کا امتیاز شاید ہی کسی اور عہد کے علم کلام کے حصہ میں آیا ہو ‘‘۔

( نقوش اقبال- ص ۲۱ ، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو )

مولانا علی میاں ندوی نے اسلامیات کے متفرق عنوانات پر ضخیم کتابیں تحریر کی ہیں ، جن کی تعداد پچاس سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان کتابوں میں ’’اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش‘‘معرکۂ ایمان و مادیت ، تاریخ دعوت و عزیمت ، دعوت فکر و عمل ، کاروان زندگی ، اور کاروان مدینہ ، قابل ذکر ہیں ۔ چنانچہ ان کتابوں میں اپنی رواں دواں تراکیب و اصطلاحات کے متواتر استعمال میں وہ جا بجا علامہ اقبال کے اشعار استعمال کرتے ہیں اور اس طرح ترجمان القرآن علامہ محمد اقبال کے ساتھ اپنی عقیدت اور وابستگی کا اظہار فرماتے ہیں ، اور کبھی انہیں عارفِ ہندی اور دانائے راز کہکر ان کے کلام کی ہمہ گیریت ، آفاقیت اور موجودہ عہد میں اس کی افادیت کو واضح کرتے ہیں ۔

’’کاروانِ زندگی ‘‘ مولانا ندوی کی ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی خود نوشت سوانح عمری ہے۔ اپنی زندگی کے پست و بلند ، سفری مشاہدات‘ علمی و اقعات اور مختلف ممالک کے حالات کا گہرا تجزیہ کتاب میں نظر آتا ہے ‘ لیکن اس کتاب کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ مصنف نے اقبال کے اشعار حسب حال استعمال کئے ہیں اور اپنے نقطۂ نظر کو واضح کرنے کے لیے فکرِ اقبال سے بھر پور استدلال کیا ہے۔ درحقیقت یہ شعر اقبال کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس کا اطلاق اور انطباق ہر مسئلے اور واقعے کی وضاحت کے دوران بڑی برجستگی کے ساتھ ہوتا ہے۔

؎ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

مولانا ندوی کی تصانیف میں جو کتاب عصری موضوعات میں بڑی گراں قدر ہے وہ  ۱۹۶۵ ؁ء میں تحریر کی گئی عربی میں تصنیف الصراع بین الفکرۃ الاسلامیۃ والفکرۃ الغربیہ فی الاقطارِ الاسلامیہ پہلی بار ’’دار الفکر ‘‘ بیروت سے چھپی ہے ۔ مذکورہ اہم کتاب امتِ مسلمہ کو مغرب کی کورانہ تقلید اور مغربیت کے اثرات سے آگہی کا مواد فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب میں بھی مولانا علی میاں نے ’’ ڈاکٹر اقبال اور مغربی تہذیب پر ان کی تنقید ‘‘ کے زیر عنوان ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔ مولانا کے خیال میں بیسویں صدی کی شروعات میں مسلمانوں نے مغربیات کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اکثر مغربی تعلیم ، تمدن ، تہذیب اور ثقافت سے متاثر بھی ہوئے اور مرعوب بھی ۔ لیکن اقبال جنہوں نے دور سے نہیں بلکہ مغرب میں ہی رہ کے وہاں کے علمی سرچشموں  سے اپنی علمی پیاس بجھائی تھی لیکن وہ مغرب کی خوبیوں کو سراہتے بھی رہے ‘وہاں کی مادی اور مشینی زندگی کے شب و روز پر تنقید کے تیر و نشتر بھی چلاتے رہے۔ لکھتے ہیں :

’’ان انقلابی ناقدین میں سب سے نمایاں نام علامہ اقبال کا ہے جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم جدیدنے اس صدی کے اندر ان سے بہتر نمونہ پیش نہیں کیا ان کو جدید مشرق کا سب سے بالغ نظر مفکر قرار دیا جا سکتا ہے، مشرق کے اہل نظر اور ذہین افراد میں (باوجود اس کے کہ ان میں اکثر کو مغرب کی سیر اور مطالعہ کا موقعہ ملا) کوئی ایسا نہ تھا ، جس نے مغربی تہذیب و افکار کا اتنی گہری نظر سے مطالعہ کیا ہو اور اس قدر جرأت کے ساتھ اس پر تنقید کی ہو‘‘۔

علامہ ندوی اپنی متعدد تصانیف میں شاعر مشرق کے فکری نظام سے وہ اجزأ، وہ تصورات اور وہ محسوسات بڑی

برجستگی سے سامنے لا چکے ہیں ، جن کا تعلق ملتِ اسلامیہ کی اجتماعی بیداری سے ہے۔ اور حقیقت میں یہی اقبال کی عظمت کا راز ہے کہ انہوں نے جہاں عالمگیر انسانی محبت و اخوت کا نظریہ اپنے فکر و فن میں پیش کیا وہاں ان کے خاص مخاطب انکی اپنی قوم ملتِ محمدیہ ؐ ہے ، جسکی ہمہ گیر ترقی کے لیے اقبال پوری عمر بے قراری کا مظاہرہ کرتے رہے۔

؎ زیارت گاہِ اہلِ عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی

پروفیسر بشیر احمد نحوی
(بہ شکریہ اداريہ كشمير عظمى)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں