کیا پاکستان، امریکا سے جنگ کر سکتا ہے؟

کیا پاکستان، امریکا سے جنگ کر سکتا ہے؟
pak-us-flagکسی فرد سے متعلق دنیا کی سب سے بڑی، طویل عرصہ پر مبنی اور مہنگی تلاش تقریباً پندرہ برس جاری رہنے کے بعد 2 مئی کو اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب صدربارک اوبامہ نے اعلان کیا کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں مارا جا چکا ہے۔

اگرچہ بہت سے لوگ اسامہ سے متعلق امریکی بیان کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ کیا واقعی اسامہ اس مکان میں رہتا تھا اور کیا اس کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس شک کا اظہار اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک یہ یقین کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر دیئے جاتے۔ علاوہ ازیں اس سے بھی زیادہ پاکستان کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ اسامہ ملک کے اہم شہر میں موجود فوجی چھاؤنی سے چند قدم کے فاصلے پر کئی سال تک مقیم رہا جبکہ اس کے قریب ہی فوجی درسگاہ کاکول اکیڈمی بھی تھی۔ اس کے علاوہ دنیا کے انتہائی مطلوب شخص کو ختم کرنے کے لئے امریکا کے خصوصی فوجی دستوں کو بھی اس علاقے میں کسی بھی قسم کی مداخلت کے بغیر ہر قسم کی رسائی حاصل تھی۔
نام نہاد سرخ نشانات جن کا پاکستانی حکام اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں کہ ان کو عبور کرنے کی کسی صورت میں بھی کسی کو اجازت نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ ان خطوط کو عبور کر کے امریکی جوتوں نے پاکستانی سر زمین کو روند ڈالا اور ملک کی افواج کسی بھی قسم کا ردعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہیں۔ امریکیوں کی یہ کارروائی کوئی پہلی کارروائی نہیں تھی اس سے پہلے بھی ان کی جانب سے کئی مرتبہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اس قسم کی کارروائیاں ہو چکی تھیں لیکن پاکستان میں اس قدر اندر داخل ہو کر ایبٹ آباد جیسے علاقے میں کبھی ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی تاہم واقعات سے متعلق دیئے گئے بیانات سے کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
تقریباً دو گھنٹے تک امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر پاکستانی فضاؤں میں اور امریکی افواج کے قدم پاکستان کی سر زمین پر رہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کی فضائی افواج اور جاسوسی کے اداروں کو ان کی موجودگی کا پتہ نہیں چل سکا، یہ بات ناقابل یقین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار کو اس کارروائی کے بارے میں بتا دیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ ہدایات بھی جاری کردی گئی تھیں کہ وہ امریکی کارروائی کے دوران کسی قسم کے ردعمل سے گریز کریں گے اور اس کارروائی میں کسی بھی مزاحمت سے اجتناب کریں گے۔
اس کی تصدیق پاکستان کی وزارت خارجہ اور خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیان سے ہوئی ہے جو انہوں نے 3 مئی کو دیا اس بیان میں انہوں نے امریکی کارروائی کو جواز فراہم کیا۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ امریکا نے یہ کارروائی اپنے اس منصوبے کے عین مطابق کی ہے جس کے بارے میں امریکا نے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا کہ اگر اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں دنیا کے کسی بھی مقام کے بارے میں پتہ چلا تو اسامہ کو ختم کرنے کے لئے امریکی افواج خود کارروائی کریں گی۔ تاہم بہت سے الفاظ میں پاکستان کے لوگوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ طاقتور امریکا نے پاکستان کے اعتراضات کے برعکس یہ کارروائی مکمل کی۔ امریکا اس شخص کے بارے میں جس نے 9/11 کی کارروائی کی منصوبہ بندی کر کے امریکا کو اس قدر کرب اور اذیت میں مبتلا کیا تھا جب انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے مصدقہ اور قابل عمل اطلاعات دے دی گئیں تو امریکا کو اپنے مجرم کے خلاف کارروائی سے روکنا ممکن نہ تھا۔
امریکی ذرائع ابلاغ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خفیہ معلومات کی روشنی میں یہ یقین کیا گیا کہ متعلقہ مقام پر اسامہ بن لادن کی موجودگی کے 40 فیصد سے 60 فیصد امکانات ہیں، جو کسی بھی کارروائی کے لئے کافی تھے۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ کسی قسم کی پیچیدگی سے بچنے کے لئے جس مقام پر امریکی کمانڈو نے کارروائی کرنی تھی اس سے متعلق پاکستان کے حکام کو آخری وقت میں اطلاع دے دی گئی ہو لیکن انہوں نے اپنے اصل ہدف کے بارے میں معلومات کو خفیہ ہی رکھا۔ اس طرز عمل سے سی آئی اے کے سربراہ کے اس توہین آمیز بیان کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ پاکستان کو ہدف کی نوعیت کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ ایسا کیا جاتا تو خطرہ تھا کہ کارروائی کے بارے میں معلومات پہلے ہی ظاہر کر دی جاتیں اور مشن ناکام ہو جاتا۔ ایسی جگہ جہاں ہر وقت فوجیوں کی موجودگی نظر آتی ہے وہاں اسامہ کی موجودگی نے پاکستانی فوج کے اداروں سے متعلق امریکیوں کو شکوک و شبہات کا شکار کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستانیوں کو اس مشن سے دور رکھا۔ اس کی ایک اور وجہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان تناؤ بھی تھا ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں آئی ایس آئی کی کوششوں سے مقتولین کے ورثاء دیت قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے اور اس طرح ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ممکن ہو سکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ آئی ایس آئی کو ایک موقع مل گیا کہ وہ اس واقعے کے پیش نظر سی آئی اے کے جاسوسوں کو پاکستان سے باہر نکالنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالے جو سفارت کاروں کے روپ میں پاکستان میں داخل ہو گئے تھے لیکن ایبٹ آباد میں سی آئی اے کے آپریشن سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کو میسر اس فائدے کو انہوں نے غیر موٴثر کردیا ہے اس لئے اس بات سے کسی کو بھی حیران نہیں ہونا چاہیے کہ دونوں ممالک اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کے مابین اعتماد کا فقدان ہے دنیا کے اس حصے میں پاکستان اور امریکا کا واضح طور پر الگ الگ ایجنڈا ہے ان میں سے ایک عالمی اور سامراجی ایجنڈے کے ساتھ سپر پاور ہے جسے دنیا کو کنٹرول کرنے کی شدید خواہش ہے جبکہ دوسرا ملک مختلف چیلنجز سے نبرد آزما ہے اور پھر بھی ایٹمی طاقت ہے۔
اگر امریکی پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے تو اس کی معقول وجوہات ہیں لیکن دوسری جانب پاکستانی بھی امریکا پر اعتماد نہیں کرتے اور یہاں اس سے زیادہ معقول وجوہات ہیں۔ یہ عدم اعتماد کی فضا دو طرفہ ہے لیکن پھر بھی زمینی حقائق کی بنا پر انہوں نے دشمن کو کسی دور دراز پہاڑی علاقے میں نہیں بلکہ ایبٹ آباد جیسی جگہ پر پکڑا جو خوبصورت موسم، معیاری اسکولوں اور فوجی تنصیبات کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔ میڈیا کو امریکا کی جانب سے ملنے والی اطلاعات (جو بہت کم درست ہوتی ہیں)کے مطابق اس مشن میں 79/امریکی نیوی سیل نے حصہ لیا جو افغانستان کی بگرام ایئربیس سے چار بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ایبٹ آباد آئے اور بن لادن کے کمپاؤنڈ میں 40 منٹ کے آپریشن کے بعد بحفاظت واپس چلے گئے۔ بہر کیف، اگر پاکستانیوں کو اس کا علم تھا تو یہ آپریشن حتمی طور پر خطرے سے خالی تھا کیونکہ پاکستانی سر زمین میں داخل ہونے والے ان امریکی ہیلی کاپٹروں کا نہ تو پاکستانی جنگی جہازوں سے سامنا ہوا اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی فائرنگ ہوئی۔ ایک اور وجہ جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کو پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا کہ ہماری فوج کا بن لادن کے کمپاؤنڈ میں امریکیوں کے جانے کے فوراً بعد داخل ہونا ہے۔
ایبٹ آباد کے کامیاب آپریشن پر امریکیوں کا جشن منانا قابل فہم ہے اگرچہ بن لادن کو مارنے کا مطلب القاعدہ کی آخری شکست یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا خاتمہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکا کی سربراہی میں قائم اتحادی افواج کی فتح کے طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس اپنے کمانڈروں کی تعریف کرنے کی کئی وجوہات ہیں جنہوں نے اطلاعات کے مطابق کمپاؤنڈ پر حملہ کیا اور اسامہ بن لادن کے تین ساتھیوں سمیت انہیں قتل کر دیا اور ان کی لاشیں اپنے ساتھ لے گئے لیکن اس مشن کو ایک عظیم کارنامہ کہنا بعید از فہم نظر آتا ہے کیونکہ اسلحے سے لیس 79/امریکی کمانڈوز نے آخر میں غیر مسلح بن لادن اور دیگر تین آدمیوں کو قتل کردیا جو اپنی نیند میں بے خبر سو رہے تھے جبکہ دیگر افراد میں خواتین اور بچے شامل تھے اور ان کے پاس کسی قسم کے ہتھیار یا خود کش جیکٹس نہیں ملیں ۔ علاوہ ازیں ایک خاتون کو مار دینا اور دوسری خاتون کو زخمی کرنا کسی بھی طرح سے بہادری کی بات نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ اسامہ کو زندہ کیوں نہیں پکڑا گیا؟؟ سابق صدر جارج ڈبلیو بش اسے زندہ یا مردہ گرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ نے انہیں قیدی نہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسامہ کی لاش کو سمندر برد بھی کر دیا تاکہ ان کی قبرپر کوئی مزار تعمیر نہ ہو سکے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کے ایک جانب کھڑے ہونے سے امریکیوں کا کام آسان ہوگیا، پاکستانی حکومت اور فوج کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ ایبٹ آباد کمپاؤنڈ پر ہونے والے حملے کے متعلق عدم واقفیت کا اظہار کریں اور اب انہیں تنقید کا سامنا ہے کیونکہ امریکی ہیلی کاپٹروں کو روکنے کی کوئی بھی کوشش ان کے ساتھ جنگ کا باعث بن سکتی ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان اپنے قبائلی علاقوں میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے مسئلے کو بھی حل کرانے سے قاصر ہے۔

رحیم اللہ یوسف زئی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں