دبئی(العربیہ ڈاٹ نیٹ)القاعدہ کے رہ نما اسامہ بن لادن کے ابیٹ آباد رہائشی کمپاونڈ سے ملنے والی سیکڑوں فلیش میمری اسٹکس اور کارڈز کے بعد ان کے طرز مراسلت کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ پانچ سال تک بغیر ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر کوئی ثبوت چھوڑے بغیر اسامہ کیسے اپنے پیروکاروں اور القاعدہ کے دوسرے رہ نماوں سے رابطہ کرتے تھے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرامریکی اہلکاروں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ دنیا کا خطرناک ترین شخص بیرونی دنیا سے اپنی مراسلت میں قابل اعتماد ساتھی پر انحصار کرتا تھا۔ وہ اپنے ذاتی کمپوٹر پر خط خود ٹائپ کرتے، پھر خط کی فائل کو فلیش میموری اسٹک میں محفوظ کر دیتے۔
اسامہ بن لادن بعد ازاں یہ فلیش اسٹک اپنے کسی معتمد ساتھی کو تھما دیتے، جو اپنے طور پر ان کے کمپاونڈ سے دور واقع کسی انٹرنیٹ کیفے پر جا کر اسے کھولتا اور اس میں بیان کردہ مضمون کو بذریعہ ای میل مرسل الیہ کو بھجوا دیتا۔
اس دوران اگر کوئی ای میل آئی ہوتی تو وہ اس کے مندرجات اسی فلیش اسٹک پر محفوظ کر لیتا، جنہیں اسامہ اپنے کمپیوٹر پر آف لائن پڑھ لیا کرتا تھا۔ اس طرح امریکا کو انتہائی مطلوب شخص تمام خفیہ اداروں کی نظروں سے بچ کر اپنے پیروکاروں اور دوسری قیادت سے رابطے میں رہتا۔
اسامہ بن لادن بعد ازاں یہ فلیش اسٹک اپنے کسی معتمد ساتھی کو تھما دیتے، جو اپنے طور پر ان کے کمپاونڈ سے دور واقع کسی انٹرنیٹ کیفے پر جا کر اسے کھولتا اور اس میں بیان کردہ مضمون کو بذریعہ ای میل مرسل الیہ کو بھجوا دیتا۔
اس دوران اگر کوئی ای میل آئی ہوتی تو وہ اس کے مندرجات اسی فلیش اسٹک پر محفوظ کر لیتا، جنہیں اسامہ اپنے کمپیوٹر پر آف لائن پڑھ لیا کرتا تھا۔ اس طرح امریکا کو انتہائی مطلوب شخص تمام خفیہ اداروں کی نظروں سے بچ کر اپنے پیروکاروں اور دوسری قیادت سے رابطے میں رہتا۔
آپ کی رائے