طرابلس (ايجنسياں) لیبیا کے سرکاری ٹی وی نے معمر قذافی کا ایک آڈیو پیغام نشر کیا ہے جس میں وہ اپنے عوام کو یقین دلارہے ہیں کہ وہ زندہ ہیں اور ایسی جگہ پر ہیں جہاں نیٹو کے بم ان تک نہیں پہنچ سکے۔
مسٹر قذافی کا یہ پیغام جمعہ کو رات گئے نشر کیا گیا۔
اس سے پہلے اٹلی کے وزیر خارجہ فرینکو فریٹینی نے دعویٰ کیا تھا کہ لیبیا کے صدر معمر قذافی نیٹو کے طیاروں کی بمباری سے ممکنہ طورپر زخمی ہو گئے ہیں اور وہ طرابلس سے کہیں اور چلے گئے ہیں۔دوسری جانب لیبی حکومت کے ترجمان نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پر معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کے جنگی طیارے گذشتہ تین روز سے مسلسل فضائی حملے کر رہے ہیں۔لیبی حکومت کے ترجمان نے اطلاع دی ہے کہ البریقہ شہر پر رات نیٹو کے طیاروں کی بمباری سے گیارہ علمائے دین جاں بحق ہو گئے ہیں۔
اطالوی وزیر خارجہ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ انہیں طرابلس کے کیتھولک بشپ جیوانی اینسونزو مارٹینیلی نے کرنل قذافی کے ممکنہ طور نیٹو کے فضائی حملے میں زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے اور کہا ہے کہ وہ شاید طرابلس سے کہیں اور چلے گئے ہیں لیکن وہ کہاں گئے ہیں ،اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ہیں۔
لیبی حکومت کے ترجمان موسیٰ ابراہیم نے طرابلس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اطالوی وزیر خارجہ کے دعوے کوغیر ذمے دارانہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ صدر قذافی کا مورال بلند ہے اور ان کی صحت بہتر ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر ملک کی قیادت کر رہے ہیں اور انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
جب اطالوی وزیر خارجہ سے لیبی حکومت کے انکار کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ بشپ مارٹینیلی کےبیان پر اعتبار کرتے ہیں۔فریٹینی نے ایک اطالوی اخبار سے الگ سے انٹرویو میں کہا کہ انہیں لیبیا کے سرکاری ٹی وی پر بدھ کو نشر کی گئی قذافی کی قبائلی زعماء کے ساتھ ویڈیو کے مصدقہ ہونے کا یقین نہیں ہے۔کیتھولک بشپ سے فوری طور پر ان سے منسوب دعوے کی حقیقت جانے کے لیے رابطہ نہیں ہو سکا اور یہ پتا چلا ہے کہ وہ لیبیا سے تیونس چلے گئے ہیں۔
ادھر نیپلز میں نیٹو فوج کے ایک عہدے دار نے اطالوی وزیر خارجہ کے بیان کی تصدیق کرنے سے انکار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ بات ثابت ہوسکے کہ لیبی صدر قذافی بمباری میں زخمی ہوئے ہیں۔نیٹو کے اس عہدے دار نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ لیبی حکومت کے خلاف فضائی حملوں میں افراد کو نشانہ نہیں بنایا جارہا ہے جبکہ لیبی شہریوں کا کہنا ہے کہ نیٹو طیارے شہری آبادیوں پر بلاامتیازبمباری کررہے ہیں اور ان کے حملوں میں اب تک بیسیوں عام شہری مارے جاچکے ہیں۔
لیبی حکومت کے ترجمان موسیٰ ابراہیم نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ مشرقی شہر البریقہ پر نیٹو طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں گیارہ علمائے دین جاں بحق اور پچاس سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔یہ علمائے دین اور دیگر افراد البریقہ میں قیام امن کے لیے جمعرات کو اجتماعی دعا کی غرض سے جمع ہوئے تھے لیکن وہ شب کو خود نیٹو کی جارحانہ بمباری کا نشانہ بن گئے۔
موسیٰ ابراہیم نے بتایا کہ ائمہ اور دیگر افراد البریقہ میں دعائے خیر کے لیے جمع ہوئے تھے اور دعا کے خاتمے کے بعد وہ رات قیام کے لیے ایک مہمان خانے میں چلے گئے۔ان پررات سوتے میں نیٹو کے طیاروں نے بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں مہمان خانہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ نیٹو کا کوئی اخلاقی معیار نہیں اور اب اس نے ان کے ملک کے ائمہ اور دینی قیادت کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔
لیبیا کے تیسرے بڑے شہرمصراتہ میں گذشتہ دو ماہ سے باغیوں اور سرکاری فوج کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ باغی جنگجووں کا کہنا ہے کہ کرنل قذافی کی فوج کو شہر کے مغربی اور مشرقی حصوں سے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور ان کا اب ہوائی اڈے کے علاقے میں محاصرہ کیا جارہا ہے۔لیبیا کے مشرقی علاقوں میں باغیوں اور سرکاری فوج کے درمیان گذشتہ دو ماہ سے جاری لڑائی کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس سے پہلے اٹلی کے وزیر خارجہ فرینکو فریٹینی نے دعویٰ کیا تھا کہ لیبیا کے صدر معمر قذافی نیٹو کے طیاروں کی بمباری سے ممکنہ طورپر زخمی ہو گئے ہیں اور وہ طرابلس سے کہیں اور چلے گئے ہیں۔دوسری جانب لیبی حکومت کے ترجمان نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پر معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کے جنگی طیارے گذشتہ تین روز سے مسلسل فضائی حملے کر رہے ہیں۔لیبی حکومت کے ترجمان نے اطلاع دی ہے کہ البریقہ شہر پر رات نیٹو کے طیاروں کی بمباری سے گیارہ علمائے دین جاں بحق ہو گئے ہیں۔
اطالوی وزیر خارجہ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ انہیں طرابلس کے کیتھولک بشپ جیوانی اینسونزو مارٹینیلی نے کرنل قذافی کے ممکنہ طور نیٹو کے فضائی حملے میں زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے اور کہا ہے کہ وہ شاید طرابلس سے کہیں اور چلے گئے ہیں لیکن وہ کہاں گئے ہیں ،اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ہیں۔
لیبی حکومت کے ترجمان موسیٰ ابراہیم نے طرابلس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اطالوی وزیر خارجہ کے دعوے کوغیر ذمے دارانہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ صدر قذافی کا مورال بلند ہے اور ان کی صحت بہتر ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر ملک کی قیادت کر رہے ہیں اور انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
جب اطالوی وزیر خارجہ سے لیبی حکومت کے انکار کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ بشپ مارٹینیلی کےبیان پر اعتبار کرتے ہیں۔فریٹینی نے ایک اطالوی اخبار سے الگ سے انٹرویو میں کہا کہ انہیں لیبیا کے سرکاری ٹی وی پر بدھ کو نشر کی گئی قذافی کی قبائلی زعماء کے ساتھ ویڈیو کے مصدقہ ہونے کا یقین نہیں ہے۔کیتھولک بشپ سے فوری طور پر ان سے منسوب دعوے کی حقیقت جانے کے لیے رابطہ نہیں ہو سکا اور یہ پتا چلا ہے کہ وہ لیبیا سے تیونس چلے گئے ہیں۔
ادھر نیپلز میں نیٹو فوج کے ایک عہدے دار نے اطالوی وزیر خارجہ کے بیان کی تصدیق کرنے سے انکار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ بات ثابت ہوسکے کہ لیبی صدر قذافی بمباری میں زخمی ہوئے ہیں۔نیٹو کے اس عہدے دار نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ لیبی حکومت کے خلاف فضائی حملوں میں افراد کو نشانہ نہیں بنایا جارہا ہے جبکہ لیبی شہریوں کا کہنا ہے کہ نیٹو طیارے شہری آبادیوں پر بلاامتیازبمباری کررہے ہیں اور ان کے حملوں میں اب تک بیسیوں عام شہری مارے جاچکے ہیں۔
لیبی حکومت کے ترجمان موسیٰ ابراہیم نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ مشرقی شہر البریقہ پر نیٹو طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں گیارہ علمائے دین جاں بحق اور پچاس سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔یہ علمائے دین اور دیگر افراد البریقہ میں قیام امن کے لیے جمعرات کو اجتماعی دعا کی غرض سے جمع ہوئے تھے لیکن وہ شب کو خود نیٹو کی جارحانہ بمباری کا نشانہ بن گئے۔
موسیٰ ابراہیم نے بتایا کہ ائمہ اور دیگر افراد البریقہ میں دعائے خیر کے لیے جمع ہوئے تھے اور دعا کے خاتمے کے بعد وہ رات قیام کے لیے ایک مہمان خانے میں چلے گئے۔ان پررات سوتے میں نیٹو کے طیاروں نے بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں مہمان خانہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ نیٹو کا کوئی اخلاقی معیار نہیں اور اب اس نے ان کے ملک کے ائمہ اور دینی قیادت کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔
لیبیا کے تیسرے بڑے شہرمصراتہ میں گذشتہ دو ماہ سے باغیوں اور سرکاری فوج کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ باغی جنگجووں کا کہنا ہے کہ کرنل قذافی کی فوج کو شہر کے مغربی اور مشرقی حصوں سے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور ان کا اب ہوائی اڈے کے علاقے میں محاصرہ کیا جارہا ہے۔لیبیا کے مشرقی علاقوں میں باغیوں اور سرکاری فوج کے درمیان گذشتہ دو ماہ سے جاری لڑائی کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
آپ کی رائے