طرابلس(بى بى سى) لیبیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ نیٹو کے فضائی حملے میں کرنل معمر قذافی کے سب سے چھوٹے بیٹے سیف العرب قذافی ہلاک ہو گئے ہیں۔
لیبیا کی حکومت نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دارالحکومت طرابلس میں ہونے والے اس فضائی حملے میں کرنل قذافی محفوظ رہے ہیں۔
لیبیا کی حکومت نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دارالحکومت طرابلس میں ہونے والے اس فضائی حملے میں کرنل قذافی محفوظ رہے ہیں۔
لیبیا کی حکومت کے ترجمان نے اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس فضائی حملے میں کرنل قذافی کے تین پوتے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
حکومتی ترجمان موسیٰ ابراہیم کا کہنا تھا کہ یہ حملہ کرنل قذافی کے صاحبزادے کے گھر پر کیا گیا جہاں قذافی خود بھی موجود تھے مگر وہ محفوظ رہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ پوری قوت کے ساتھ کیا گیا۔
موسیٰ ابراہیم نے تصدیق کی کہ اس حملے میں انتیس سالہ سیف العرب قذافی ہلاک ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معمر قذافی اپنی اہلیہ، دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ وہاں موجود تھے مگر محفوظ رہے۔
حکومتی ترجمان نے کہا کہ کرنل قذافی کو قتل کرنے کے لیے یہ براہ راست حملہ تھا۔
موسیٰ ابراہیم نے کہا کہ اس حملے سے یہ بات واضع ہو گئی ہے کہ مغرب کی لیبیا میں امن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ لیبیا کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف نیٹو نے اپنے ایک بیان میں اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اس میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ تاہم بیان میں کرنل قذافی کے خاندان کے افراد کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے برطانوی وزیر دفاع لیم فوکس سے جب پوچھا گیا تھا کہ کیا کرنل قذافی بھی ایک ہدف ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ کوئی بھی شخص جو لیبیا کے کمانڈ اور کنٹرول سسٹم سے منسلک ہے وہ ایک جائز ہدف ہے۔
سیف العرب کرنل قذافی کے چھ صاحبزادوں میں سب سے چھوٹے تھے جو حال ہی میں جرمنی سے تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹے تھے۔
ادھر لیبیائی باغیوں کے مضبوط گڑھ بن غازی میں اس حملے کی اطلاع ملتے ہی خوشی میں ہوائی فائرنگ کی گئی ہے۔
طرابلس میں موجود صحافیوں کا کہنا ہے کہ حملے میں گھر کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ایک بم جو پھٹ نہیں سکا ابھی بھی وہاں پڑا ہوا ہے۔
اس سے پہلے کرنل قذافی نے کہا تھا کہ کوئی بھی انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتا اور نیٹو کو فضائی حملے روک کر معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہیئیں۔
جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب ٹی وی پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا ’کوئی مجھے مجبور نہیں کر سکتا کہ میں اپنا وطن چھوڑ کر چلا جاؤں یا اس کے لیے نہ لڑوں‘۔
تاہم لیبیائی رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ اس کی شرائط فریقین کے لیے قابلِ قبول ہوں۔
’جنگ بندی یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔ ہم نہ ہی سمندر سے ان پر حملہ کر رہے ہیں اور نہ ہی سمندر عبور کر رہے ہیں۔ تو وہ کیوں ہم پر حملے کر رہے ہیں۔ ہم ہر حملہ آور ممالک سے میرا کہنا ہے کہ آئیں ہم آپ سے بات چیت کرتے ہیں‘۔
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیٹو نے کرنل قذافی کی حامی افواج پر الزام لگایا ہے کہ وہ مصراتہ کی بندرگاہ کے قریب سمندر میں بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
لیبیا میں جاری نیٹو کی کارروائی کے ڈائریکٹر آپریشنز بریگیڈیئر راب ویہل نے بتایا ہے کہ بین الاقوامی اتحادی افواج کے بحری جنگی جہازوں نے مصراتہ کے ساحل سے دو سے تین کلومیٹر دور سمندر میں متعدد ایسی چھوٹی کشتیوں کی راہ میں روکاٹ ڈالی جو بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ بارودی سرنگیں بچھانے سے صاف ظاہر ہے کہ کرنل قذافی بین الاقوامی قوانین کی بالکل پروا نہیں کرتے اور وہ امداد کی فراہمی کے عمل کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
لیبیا کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ انہیں بارودی سرنگیں بچھانے سے متعلق کوئی آگاہی نہیں ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ لیبیا مصراتہ میں سمندر کے راستے مزید امدادی سامان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتا اور امدادی ادارے اگر وہاں سامان پہنچانا چاہتے ہیں تو خشکی کا راستہ استعمال کریں۔.
مصراتہ مغربی لیبیا میں باغیوں کا واحد قابلِ ذکر مرکز ہے اور کرنل قذافی کی حامی افواج نے کئی ہفتوں سے اس کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ سرکاری فوج اگرچہ حال ہی میں شہر کے مرکز سے پسپا ہوئی ہے تاہم باغیوں کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز کچھ فاصلے سے شہری علاقوں پر گولہ باری کر رہی ہیں اور جمعہ کو بھی حکومتی ٹینکوں نے شہر میں دوبارہ داخلے کی کوشش کی ہے۔
لیبیائی حکومت کے ترجمان موسٰی ابراہیم کا کہنا تھا کہ حکومت ثابت کر چکی ہے کہ بن غازی سے ہتھیار سمندری راستے سے مصراتہ کے باغیوں تک پہنچائے گئے ہیں اور ’ہم بندرگاہ کے راستے باغیوں کو ہتھیار اور سامانِ رسد کی فراہمی کی اجازت نہیں دے سکتے‘۔
لیبیائی ٹی وی پر اعلان کیا گیا ہے کہ اب بندرگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے جہاز پر بلا تخصیص حملہ کر دیا جائے گا۔
موسٰی ابراہیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگلے چار دنوں کے دوران مصراتہ میں ہتھیار ڈالنے والوں اور خود کو حکومت کے حوالے کرنے والے باغیوں کو معاف کر دیا جائے گا تاہم اگر انہوں نے جنگ جاری رکھی تو انہیں مکمل طاقت کا سامنا کرنا ہوگا۔
طرابلس میں موجود بی بی سی کے ایئن پینل کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومتی افواج کی جانب سے مصراتہ کے بیشتر علاقے پر کنٹرول کا دعوٰی کیا جا رہا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ لیبیائی حکومت نیٹو کے دباؤ کی وجہ سے دفاعی پوزیشن سنبھالنے اور حال ہی میں ہونے والے نقصانات سے سنبھلنے کی کوشش کرنے پر مجبور ہے۔
حکومتی ترجمان موسیٰ ابراہیم کا کہنا تھا کہ یہ حملہ کرنل قذافی کے صاحبزادے کے گھر پر کیا گیا جہاں قذافی خود بھی موجود تھے مگر وہ محفوظ رہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ پوری قوت کے ساتھ کیا گیا۔
موسیٰ ابراہیم نے تصدیق کی کہ اس حملے میں انتیس سالہ سیف العرب قذافی ہلاک ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معمر قذافی اپنی اہلیہ، دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ وہاں موجود تھے مگر محفوظ رہے۔
حکومتی ترجمان نے کہا کہ کرنل قذافی کو قتل کرنے کے لیے یہ براہ راست حملہ تھا۔
موسیٰ ابراہیم نے کہا کہ اس حملے سے یہ بات واضع ہو گئی ہے کہ مغرب کی لیبیا میں امن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ لیبیا کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف نیٹو نے اپنے ایک بیان میں اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اس میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ تاہم بیان میں کرنل قذافی کے خاندان کے افراد کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے برطانوی وزیر دفاع لیم فوکس سے جب پوچھا گیا تھا کہ کیا کرنل قذافی بھی ایک ہدف ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ کوئی بھی شخص جو لیبیا کے کمانڈ اور کنٹرول سسٹم سے منسلک ہے وہ ایک جائز ہدف ہے۔
سیف العرب کرنل قذافی کے چھ صاحبزادوں میں سب سے چھوٹے تھے جو حال ہی میں جرمنی سے تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹے تھے۔
ادھر لیبیائی باغیوں کے مضبوط گڑھ بن غازی میں اس حملے کی اطلاع ملتے ہی خوشی میں ہوائی فائرنگ کی گئی ہے۔
طرابلس میں موجود صحافیوں کا کہنا ہے کہ حملے میں گھر کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ایک بم جو پھٹ نہیں سکا ابھی بھی وہاں پڑا ہوا ہے۔
اس سے پہلے کرنل قذافی نے کہا تھا کہ کوئی بھی انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتا اور نیٹو کو فضائی حملے روک کر معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہیئیں۔
جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب ٹی وی پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا ’کوئی مجھے مجبور نہیں کر سکتا کہ میں اپنا وطن چھوڑ کر چلا جاؤں یا اس کے لیے نہ لڑوں‘۔
تاہم لیبیائی رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ اس کی شرائط فریقین کے لیے قابلِ قبول ہوں۔
’جنگ بندی یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔ ہم نہ ہی سمندر سے ان پر حملہ کر رہے ہیں اور نہ ہی سمندر عبور کر رہے ہیں۔ تو وہ کیوں ہم پر حملے کر رہے ہیں۔ ہم ہر حملہ آور ممالک سے میرا کہنا ہے کہ آئیں ہم آپ سے بات چیت کرتے ہیں‘۔
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیٹو نے کرنل قذافی کی حامی افواج پر الزام لگایا ہے کہ وہ مصراتہ کی بندرگاہ کے قریب سمندر میں بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
لیبیا میں جاری نیٹو کی کارروائی کے ڈائریکٹر آپریشنز بریگیڈیئر راب ویہل نے بتایا ہے کہ بین الاقوامی اتحادی افواج کے بحری جنگی جہازوں نے مصراتہ کے ساحل سے دو سے تین کلومیٹر دور سمندر میں متعدد ایسی چھوٹی کشتیوں کی راہ میں روکاٹ ڈالی جو بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ بارودی سرنگیں بچھانے سے صاف ظاہر ہے کہ کرنل قذافی بین الاقوامی قوانین کی بالکل پروا نہیں کرتے اور وہ امداد کی فراہمی کے عمل کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
لیبیا کے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ انہیں بارودی سرنگیں بچھانے سے متعلق کوئی آگاہی نہیں ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ لیبیا مصراتہ میں سمندر کے راستے مزید امدادی سامان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتا اور امدادی ادارے اگر وہاں سامان پہنچانا چاہتے ہیں تو خشکی کا راستہ استعمال کریں۔.
مصراتہ مغربی لیبیا میں باغیوں کا واحد قابلِ ذکر مرکز ہے اور کرنل قذافی کی حامی افواج نے کئی ہفتوں سے اس کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ سرکاری فوج اگرچہ حال ہی میں شہر کے مرکز سے پسپا ہوئی ہے تاہم باغیوں کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز کچھ فاصلے سے شہری علاقوں پر گولہ باری کر رہی ہیں اور جمعہ کو بھی حکومتی ٹینکوں نے شہر میں دوبارہ داخلے کی کوشش کی ہے۔
لیبیائی حکومت کے ترجمان موسٰی ابراہیم کا کہنا تھا کہ حکومت ثابت کر چکی ہے کہ بن غازی سے ہتھیار سمندری راستے سے مصراتہ کے باغیوں تک پہنچائے گئے ہیں اور ’ہم بندرگاہ کے راستے باغیوں کو ہتھیار اور سامانِ رسد کی فراہمی کی اجازت نہیں دے سکتے‘۔
لیبیائی ٹی وی پر اعلان کیا گیا ہے کہ اب بندرگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے جہاز پر بلا تخصیص حملہ کر دیا جائے گا۔
موسٰی ابراہیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگلے چار دنوں کے دوران مصراتہ میں ہتھیار ڈالنے والوں اور خود کو حکومت کے حوالے کرنے والے باغیوں کو معاف کر دیا جائے گا تاہم اگر انہوں نے جنگ جاری رکھی تو انہیں مکمل طاقت کا سامنا کرنا ہوگا۔
طرابلس میں موجود بی بی سی کے ایئن پینل کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومتی افواج کی جانب سے مصراتہ کے بیشتر علاقے پر کنٹرول کا دعوٰی کیا جا رہا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ لیبیائی حکومت نیٹو کے دباؤ کی وجہ سے دفاعی پوزیشن سنبھالنے اور حال ہی میں ہونے والے نقصانات سے سنبھلنے کی کوشش کرنے پر مجبور ہے۔
آپ کی رائے