شام: سکیورٹی فورسز کی مظاہرین پر فائرنگ، مزید 62 افراد ہلاک

شام: سکیورٹی فورسز کی مظاہرین پر فائرنگ، مزید 62 افراد ہلاک
syria-clashesدبئی(العربیہ ڈاٹ نیٹ)شام میں سکیورٹی فورسز نے تشدد کی کارروائیوں میں مزید باسٹھ افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔دارالحکومت دمشق سمیت مختلف شہروں میں نماز جمعہ کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرے کیے اور سکیورٹی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مظاہرین کو براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا ہے جبکہ جنوبی شہر درعا میں ایک جھڑپ میں آٹھ فوجی مارے گئے ہیں۔

شام کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ”جمعہ الغضب” کے موقع پر سب سے زیادہ ہلاکتیں جنوبی شہر درعا میں ہوئی ہیں جہاں نواحی علاقوں کے دیہاتیوں نے سکیورٹی فورسز کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کی توان پر براہ راست فائرنگ کردی گئی ہے جس سے کم سے کم بیس افراد ہلاک ہو گئے۔شام کی سکیورٹی فورسز نے گذشتہ سوموار سے درعا کا چاروں اطراف سے محاصرہ کر رکھا ہے اور وہاں کے مکینوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
درعا کے شہریوں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ شہر کے مردہ خانوں میں گذشتہ دو ایک روز میں تراسی لاشیں لائی گئی ہیں۔ان میں خواتین اور بچوں کی لاشیں بھی شامل ہیں۔ان میں سے بیشتر کو براہ راست فائرنگ سے ہلاک کیا گیا تھا۔سکیورٹی فورسز کے محاصرے کی وجہ سے درعا کے شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں.
درعا میں مسلح افراد نے ایک چوکی پر فائرنگ کرکے مبینہ طورپر آٹھ فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے حملے کو ”مسلح دہشت گردوں” کی کارروائی قرار دیا ہے۔اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کر لیا اور ان کے پچاس موٹر سائیکل ضبط کر لیے ہیں۔
ایک اور اطلاع کے مطابق دیہاتیوں نے درعا شہر کے باہر سکیورٹی فورسز کی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کی تو ان کی اہلکاروں سے جھڑپ ہوگئی جس میں آٹھ فوجی مارے گئے ہیں۔یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب ملک بھر میں شامی شہری درعا کے مکینوں کے حق میں یوم الغضب منارہے تھے اور دمشق، دوما، اللذاقیہ، حمص ، بانیاس، القامشیلی ، عامودا اور دوسرے شہروں میں مظاہرے کررہے تھے۔
شامی سکیورٹی فورسز نے دمشق ،حمص ،اللذاقیہ اور دوسرے شہروں میں بھی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر فائرنگ کی ہے جس سے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔”جمعہ الغضب” کے موقع پر ہزاروں شامی شہریوں نے صدراسد کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی اوران سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے صدراسد کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

اخوان المسلمون کی اپیل
قبل ازیں شام کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون نے شہریوں پر زوردیا کہ وہ جمعہ کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل کراحتجاج کریں۔اخوان المسلمون نے اپنی اپیل میں شامی سکیورٹی فورسز کے محاصرے کا شکارجنوبی شہر درعا کے مکینوں کی فوری مدد پر زوردیا جہاں فوج کی ٹینکوں کے ساتھ کارروائی کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد کم سے کم ایک سو ہوگئی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اخوان المسلمون نے تین عشرے کے بعد شامی حکومت کے خلاف مظاہروں کا مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ 1982ء میں بشارالاسد کے والد حافظ الاسد نے اخوان السملمون کے کارکنان کے خلاف سخت کریک ڈاٶن کیا تھا اور بائیں بازو کی تحریکوں کے ساتھ اخوان کو بھی بہت برے طریقے سے کچل دیا گیا تھا۔ تب حمہ شہر میں اخوان السلمون کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں دس سے تیس ہزار کے درمیان افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
شام کی اخوان المسلمون کی جلاوطن قیادت نے برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز کو ایک اعلامیہ بھیجا ہے جس میں شامی شہریوں سے کہا گیا کہ ” وہ حکومت کو اپنے ساتھیوں کا محاصرہ نہ کرنے دیں۔ایک ہی آواز میں آزادی اور وقار کے لیے نعرے بازی کریں۔آمر کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کا محاصرہ کرے”۔
اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ حکومت اسلام پسندوں پر یہ الزام عاید کررہی ہے کہ حالیہ گڑ بڑ میں ان کا ہاتھ ہے حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں بلکہ حکومت کے اس الزام کا مقصد خانہ جنگی کو ہوا دینا ہے تاکہ سیاسی آزادیوں اور بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں چلنے والی تحریک کو نقصان پہنچایا جاسکے۔
شام کی سکیورٹی فورسز کو تین روز قبل ہی ٹینکوں کے ساتھ دارالحکومت دمشق میں تعینات کیا گیا تھا جبکہ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے گذشتہ ڈیڑھ ایک ماہ کے دوران جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کارروائیوں میں پانچ سے زیادہ افراد کو ہلاک کردیا ہے۔شام آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ اس نے ساڑھے چارسوسے زیادہ شہریوں کے نام جمع کر لیے ہیں،جنہیں حکومت کے خلاف حالیہ مظاہروں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں ہلاک کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کونسل کا اجلاس
ادھر جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں مظاہرین کے خلاف بشارالاسد کی حکومت کے کریک ڈاٶن کی تحقیقات کے لیے ایک مشن شام بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ برسلز میں یورپی یونین کے سفیروں کے اجلاس میں شام کے خلاف پابندیاں عاید کرنے پرغور کیا گیا ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق یورپی یونین کی مجوزہ پابندیوں کے تحت مظاہرین پر تشدد کے ذمے دار شام کے اعلیٰ عہدے داروں کے اثاثے منجمد کیے جاسکتے ہیں اور ان پر سفری قدغنیں لگائی جاسکتی ہیں۔امریکا پہلے ہی اسد خاندان پر اس طرح کی پابندیاں عاید کرچکا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں شام کی صورت حال پر غورکے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفترکو شام میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک مشن بھیجنے کا کہا جائے گا جو تشدد کے واقعات کی وجوہات کا تعین کرے گا اور اس بات کا بھی تعین کرے گا کہ آیا یہ واقعات انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں۔
انسانی حقوق کونسل کا اجلاس امریکا اور دس یورپی ممالک کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا۔ان ممالک کے علاوہ جاپان ، میکسیکو، جنوبی کوریا، سینی گال اور زیمبیا نے بھی اجلاس بلانے کے لیے درخواست پر دستخط کیے تھے۔کونسل کے رکن عرب ممالک میں سے کسی نے بھی اس درخواست پر دستخط نہیں کیے تھے ۔واضح رہے کہ کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کے لیے سینتالیس رکن ممالک میں سے ایک تہائی ارکان کی جانب سے درخواست دی جانی ضروری ہے۔
امریکا نے کونسل کے اجلاس میں شام میں تشدد کے واقعات کی تحقیقات کے لیے قرارداد پیش کی جس کے حق میں چھبیس ممالک نے ووٹ دیا،نو ممالک نے اس کی مخالفت کی۔سات غیر جانبدار رہے جبکہ پانچ نے رائے شماری کے وقت اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ قرارداد میں شام میں عالمی انسانی حقوق سے متعلق قانون کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد بین الاقوامی مشن بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور تشدد کے واقعات کی مذمت کی گئی ہے۔
شام کے روایتی اتحادی ممالک روس ،چین ،کیوبا ،اسلامی ممالک ملائشیا اور پاکستان اور بعض عرب ممالک بھی انسانی حقوق کونسل کے ارکان ہیں۔شام بھی 2012ء سے 2014ء کے درمیان کونسل کی رکنیت کا امیدوار ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی مئی میں نئے رکن ممالک کا انتخاب کرے گی لیکن اگر شام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات ہوتی ہے تواس کی رکنیت خطرے میں پڑجائے گی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں